84

طلبہ کی کردار سازی دراصل قوم کی تعمیر ہے

طلبہ کا کردار سازی دراصل قوم کی تعمیر ہے۔
قوم اچھے کردار اور اچھی عادات کا مجموعہ ہے۔
ایک قوم اپنے لوگوں کی اخلاص، اخلاق اور اقدار سے پہچانی جاتی ہے۔
اس موضوع پر میں نے اپنے طلباء کی رائے لی تو ایک طالب علم نے اپنی رائے یوں دی۔

طلبہ کی کردار سازی قوم کی تعمیر میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ طلبہ قوم کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، اور ان کے اخلاق و کردار، سوچ اور علم کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ ایک مضبوط قوم کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ اس کے افراد اخلاقی اقدار، دیانت داری، اور قربانی جیسے اوصاف کے حامل ہوں، اور یہ اوصاف طلبہ کے کردار میں ابتدائی عمر سے پروان چڑھائے جائیں۔
تعلیمی اداروں اور اساتذہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف تعلیمی کامیابی پر زور نہ دیں بلکہ طلبہ کی تربیت پر بھی توجہ دیں۔

والدین اور معاشرہ بھی کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر طلبہ کو زندگی کے ابتدائی مراحل میں ایمانداری، انصاف پسندی، اور دوسروں کے حقوق کا احترام سکھایا جائے تو وہ آگے چل کر معاشرے کے فعال اور ذمہ دار شہری بن سکتے ہیں۔
قوم کی ترقی اور خوشحالی کا انحصار اسی بات پر ہے کہ اس کے افراد کس حد تک اخلاقی اور عملی اعتبار سے مضبوط ہیں، اور یہ بنیاد کردار سازی کے ذریعے ہی رکھی جا سکتی ہے۔
ایک اور طالب علم نے مختصر بات کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ ہر استاد طلبہ کے لئے رول ماڈل ھوتا ھے تو اس لحاظ سے کردار سازی میں اساتذہ کا بڑا کردار ھے۔

طلبعلم مستقبل میں اپنے اساتذہ کے طور طریقوں کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔
ایک طالب علم نے اخلاص، اخلاق اور اقدار کی تشریح کرتے ہوئے لکھا:

اخلاص کا مطلب ہے کہ لوگ اپنے رویوں میں سچائی اور وفاداری سے کام لیں کیونکہ مہذب رویے قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اخلاق کا مطلب ہے کہ لوگ معاشرے میں بہتر سلوک کا مظاہرہ کریں تاکہ معاشرے میں منفی سرگرمیوں کو فروغ نہ ملے ۔
اقدار کا مطلب وہ اصول ہیں کہ جس میں لوگ معاشرے میں ایک دوسرے سے بنیادی احترام کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔
کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے​
آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو​
پہلی سیڑھی پر قدم رکھ ،آخری سیڑھی پر آنکھ​
منزلوں کی جستجو میں رائیگاں کوئی پل نہ ہو​۔

استاد کی شخصیت کا اپنے طلباء پر کافی گہرا اثر ہوتا ہے۔ جو استاد آئیڈیل ہو تو طلباء اپنی لائف میں کوشش کرتا ہے کہ اس استاد کی طرح بن جائے۔
طلباء کے ذہن ایک خالی پیج کی مانند ہوتے ہیں۔ خالی پیج پر جو مرضی لکھ لے اسی طرح طلباء کے ذہن میں جو چاہو ڈال دیں۔ اچھے کردار سکھائے تو اچھا معمار، برے عادات سکھائے تو معاشرے میں بگاڑ۔

کردار سازی کے عمل میں نوجوان طلباء کو مستقل کے چیلنجز کا مقابلہ سکھانا ہے۔ والدین، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے حقوق سکھانے ہیں۔ نوجوانوں کو سکھانا ہے کہ کیسے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ ان کو اسلام کے تناظر میں نوجوانوں کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔
اکثر نوجوان دنیا کی رنگینیوں میں گم رہتے ہیں اور مقصد انسانیت بھول جاتے ہیں۔ ان کو بتانا ہے کہ کون کونسے عادات آپ کی صحت، وقت، مال و دولت کو کھا جاتے ہیں۔

نوجوانوں کو سکھانا ہے کہ کیسے ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اسلام کے تناظر میں ان کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔
کرپشن اور ناجائز ذرائع آمدن نہ صرف نوجوانوں کی حق تلفی کا باعث ہے بلکہ معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنی ہے کہ خود بھی اور ارد گرد کے لوگوں کو حلال اور جائز ذرائع آمدن پر زور دے۔ کسب حلال میں بڑی برکت ہوتی ہے اور حلال کمانے والا لوگوں کی نظروں میں بھی محبوب اور اللہ کے ہاں بھی بلند درجات کا حامل گردانا جاتا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں