سیاسی تناؤ اور افراتفری 272

سیاسی تناؤ اور افراتفری

پی ڈی ایم کی تحریک کا پہلا مرحلہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا اور جلوسوں میں جس قدر عوامی شمولیت کی توقع کی جا رہی تھی وہ پوری نہیں ہو سکی مگر اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ ملک میں سب کچھ اچھا ہے حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی ناکامی کے باوجود معاشرے میں ہر طرف حکومت کے خلاف بے چینی اور افراتفری موجود ہے ملک میں احتجاجی جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے ہیں کبھی سرکاری ملازمین اپنی تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کا رونا رو رہے ہیں اور کبھی ڈاکٹر اور نرسیں اور کبھی بجلی اور گیس کے صارفین اور کبھی مہنگائی سے تنگ آئے لوگ باہر نکل کر احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں اور کبھی ریلیاں نکال رہے ہیں اگر عوامی جائزہ لیا جائے تو تاجروں سے مزدور وں تک ہر کوئی اپنی معاشی بد حالی پر مفطرب اور پریشان دکھائی دیتا ہے اور ہر کوئی اپنے دگرگوں حالات سے غیر مطمئن ہے اور ہر ایک کا یہ خیال ہے کہ جو اسے ملنا چاہیے تھا وہ اسے نہیں مل رہا یا جو خواب اسے دکھائے گئے تھے اور جو وعدے اس سے کئے گئے تھے وہ پورے ہوتے نظر نہیں آرہے جب معاشرے میں اس طرح کا عمومی تناؤ ہو تو عوامی احتجاج کا ماحول پیدا کرنے کے لئے صرف ایک دیا سلائی دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے حکومت خوش قسمت ہے کہ اہل سیاست کو ابھی ایسی دیا سلائی نہیں مل سکی جو اس تناؤ اور افراتفری کوانقلاب اور عوامی احتجاج میں تبدیل کرنے کیلئے ضروری ہے جب آپ کو اپنی امید سے کم ملے تو افراتفری اور بے چینی شروع ہو جاتی ہے جب آپ کو محسوس ہونے لگے کہ آپ کو محنت اور جدوجہد کے باوجود اآپ کو وہ کچھ نہیں مل رہا جس کا وعدہ کیا گیا تھا یا جس کی امید دلائی گئی تھی تو پھر اضطراب اور بے چینی جنم لیتی ہے اس وقت ہر طرف یہی صورت حال نظر آرہی ہے دراصل وعدے اس قدر بلند بانگ اور امید یں بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن عملدرآمد نہ ہونے کے برابر وعدوں اور عملدرآمد میں خلا ء اور تفاوت ہی بے چینی اور تناؤ کی اصل وجہ ہے اگر حکمران بے چینی اور افراتفری کا توڑ نہ کریں تو بے چینی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور آخر کار یہی بے چینی‘تبدیلی کا باعث بنتی ہے بے چینی دراصل سیاسی شعور کے اظہار کا ذریعہ ہے اور جب اس اظہار کا مثبت جواب نہ ملے تو پھر اس کا رخ تبدیلی کی طرف مڑ جاتا ہے موجودہ حکومت کو ہر طرف پھیلی بے چینی اور تناؤ کو سکون میں بدلنے کیلئے دوررس اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ اگلے انتخابات میں یہی بے چینی اور افراتفری غصہ بن کر اس حکومت کے خلاف کام کرے گی دنیا بھر کی تحریکوں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ تحریک پہلے ہی دن آگ کے الاؤ کی طرح جلتی اور بھڑکتی نہیں بلکہ پہلے چھوٹی چھوٹی چنگاریاں سلگتی ہیں ان میں ہلکی ہلکی آگ لگتی ہے پھر رفتہ رفتہ یہی چنگاریاں بڑے بڑے انگارے بن کر الاؤ کی آگ کو تیز کر دیتی ہیں ابھی تک کی صورت حال میں جلسے‘جلوس احتجاج اور مظاہرے چھوٹی چھوٹی چنگاریاں ہیں حکومت کو چاہیے کہ ان چنگاریوں پر ابھی سے پانی ڈالے تاکہ یہ الاؤ کی شکل اختیار کر کے حکومت کے لئے خطرہ نہ بن جائیں عمران خان نے بائیس سال کوچہ کوچہ قریہ قریہ جلسے اور جلوس اور دھرنے کی سیاست کی ہے اس لئے وہ بذات خودعوامی مزاج سے بخوبی واقف ہیں امید ہے کہ وزیراعظم‘کابینہ‘وزراے‘مشیران‘معاونین خصوصی‘معاشی ٹیم اور ترجمانوں جو کہ قابلیت اور اہلیت میں دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں اور فلاسفروں کے ہم پلہ گردانے جاتے ہیں نے ان احتجاجی جلوسوں
کے اندر عوامی مزاج کا اندازہ ضرور لگایاہو گا اور پھر عوامی افراتفری ختم کرنے یا اس کا مداوا کرنے کے بارے میں کوئی نہ کوئی فارمولا ضرور بنایا ہو گاتوقع کرنی چاہیے کہ اس فارمولے پرجلد ازجلد عملدرآمد کرنے کا آغاز بھی ہو گادوسری طرف پی ڈی ایم تحریک کے دوسرے مرحلے کو شروع کرنے والی ہے اسے بھی ٹھنڈے دل سے ہر طرف موجود عوامی مسائل کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے اور انہی مسائل کو اپنی تحریک کا حصہ بنانا چاہیے کوئی بھی تحریک صرف سیاسی کارکنوں کی شرکت سے کامیاب نہیں ہو سکتی حقیقت یہ ہے کہ اگر عام لوگ کسان‘مزدوریا معاشرے کے دوسرے طبقے کسی مہم یا تحریک میں شریک نہ ہوں تو اس کی کامیابی کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے پی ڈی ایم کی تحریک کو پہلے مرحلے میں یہ کمزوری خاص طور پر دیکھنے میں آئی کہ اس میں صرف سیاسی کارکن ہی شریک تھے عوام‘کاشتکار‘مزدور یا طالب علم اس میں نظر نہیں آئے پی ڈی ایم نے اگر کامیاب ہونا ہے تواسے بے چینی اور تناؤ میں مبتلا طبقات سے رابطہ کرنا ہوگا اور پھر ان کے ساتھ مل کراپنے احتجاج کو مربوط کرنا ہو گا جبکہ دوسری طرف حکومت کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ سیاسی جماعتوں اور مضبوط طبقات کا اتحاد نہ ہو سکے اس کیلئے حکومت کو احتجاجی طبقات کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور حکومت کا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ وہ عوام کو اطمینان اور سکون کی دولت سے مالامال کرے اور ان کی امیدوں پر حتی الوسع پورااترنے کی کوشش کرے ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو رہا اس لئے عوم میں بے چینی اور افراتفری دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اگر اس معاملے کا مثبت پہلو دیکھا جائے تووہ یہ ہے حکومت کو نصف مدت مکمل ہونے کے باوجود لوگوں کی امیدیں مکمل طور پر ٹوٹ چکی ہیں لیکن پھر بھی انہیں امید ہے کہ حکومت ان کے ساتھ کئے گئے وعدے پورے کرے گیاور یہ جلسہ جلوس اور احتجاج حکومت کو جھنجھوڑنے اور توجہ دلانے کیلئے ہیں اگر حکومت نے ان جلسے‘جلوسوں اور احتجاجی مظاہروں کا اثر قبول نہ کیا اور عوامی‘افراتفری کا خیال نہ کیا تو پھر اگلا مرحلہ ناراضگی اور مخالفت کا ہو گا البتہ جب عوام کی امیدیں مکمل طور پر ٹوٹ جائیں گی اور بے چینی اور افراتفری کا ملاوانہ کیا جائے گا تو اضطراب مزید بڑھے گا اور پھر یہ تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں