164

سونے کی چڑیا بارود کی پُڑیا بن گئی

{jcomments on}ء  1947میں جب ہندوستان کا بٹوارہ ہوا، اصول یہ طے ہوا کہ مسلم اکثر یتی آبادی والے علاقوں پر مشتمل پاکستان ایک الگ ملک بنا دیا جائے۔ لیکن بد قسمتی سے یہ نیم خود مختار ریاستوں کے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کیا گیا

کہ یہ بھی مذہبی بنیاد پر ان کو بھی تقسیم کیا جائے۔ کہ جس ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ہو وہ پاکستان میں شامل ہو جائیں اور جن میں غیر مسلم آبادی ہو وہ ہندوستان میں شامل ہو جائیں۔ ریاستوں کی عوام کو حق دینے کی بجائے ان کے مہاراجوں کو یہ حق دے دیا گیا کہ وہ ان دو ملکوں میں سے جس سے چاہیں الحاق کر لیں یا خود مختار رہیں۔
اصولاً مسلم لیگ کو یہ اصول قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مسلم لیگ نے اس اصول کو تسلیم کرتے ہوئے جونا گڑھ اور حیدر آباد ریاست کے مہاراجوں کے اعلان کے مطابق الحاق قبول کر لیا کیوں کہ ان دونوں ریاستوں کے مہاراجے مسلمان تھے۔ لیکن ان ریاستوں میں غیر مسلم آبادی کی اکثریت تھی اور غیر مسلم آبادی متحد ہو کر زبردست تحریک چلا رہے تھے کہ ہم ہندوستان سے الحاق کر یں گے ۔ اُن دو ریاستوں پر ہندوستان نے وہاں کی رعایا اور اپنی فوج کے بل بوتے پر قبضہ کر کے دونوں مہاراجوں کو محلات تک محدود کر دیا اور ان دو ریاستوں کے بسنے والے لوگوں کو مہاراجوں سے آزاد کرا کے انہیں ہندوستان کے برابر شہری بنا لیا۔ تیسری ریاست مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ نے خود مختار رہنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی اُس نے کشمیریوں کی سب سے بڑی جماعت نیشنل کانفرنس جو جاگیرداری کے خلاف سخت موقف رکھتی تھی جس کی قیادت شیخ عبداللہ کر رہے تھے انہیں بھی مہاراجے نے ہم خیال بنا لیا۔
بدقسمتی سے کشمیریوں کی دو بڑی سیاسی جماعتیں تھیں۔ جن کا آپس میں شدید اختلاف تھا۔ ’’مسلم کانفرنس‘‘ جس کی قیادت چوہدری غلام عباس کر رہے تھے وہ پاکستان سے الحاق کرنے کی حامی تھی جبکہ ’’نیشنل کانفرنس‘‘ خود مختاری کے حق میں تھی۔ ان کے نفاق کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہ ہوا ۔ جب پاکستان نے ریاست کشمیر پر بزور طاقت قبضہ کرنے کی کوشش کی کیونکہ پاکستان یہ سمجھتا تھا کہ جس طرح ہندوستان نے ان دو ریاستوں پر قبضہ کیا اس طرح ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ہم مسلم اکثریتی آبادی رکھنے والی ریاست کشمیر پر قبضہ کر لیں۔لیکن پاکستان نے کشمیریوں کے نفاق کو مد نظر نہیں رکھا۔ جن علاقوں میں مسلم کانفرنس کا عمل دخل تھا وہ تو بڑی آسانی سے پاکستان کے حامی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن جن علاقوں میں نیشنل کانفرنس کا اثر تھا اُن لوگوں نے پاکستان سے الحاق کرنے والی جد و جہد کو ضروری نہ سمجھا۔ اُن کے اس رویے کو دیکھتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان سے فوجی مدد طلب کی ۔ ہندوستان نے شرط رکھی کہ اگر تم ہندوستان سے الحاق کر لو پھر ہم تمہاری مدد کریں گے۔ مہاراجے نے فوراً الحاق کیا اور اس بہانے ہندوستان نے اپنی فوجیں بھیج کر پاکستان کی پیش قدمی روک دی اور ساتھ ہی ’’نیشنل کانفرنس‘‘ کے راہنماؤں کو ساتھ ملا کر اقوام متحدہ میں یہ مقدمہ لے گیا۔ اور وہاں پر بڑا عجیب فیصلہ کرانے میں کامیاب ہو گیا کہ پاکستان اپنی فوج اور پاکستانی مجاہدین کو کشمیر سے نکال لے اور ہندوستان کشمیر میں ’’استصواب راے‘‘ کرائے ، کہ عوام کس ملک سے الحاق کرنا چاہتے ہیں۔
میری نظر میں یہاں پر خود مختاری کا حق بھی کشمیریوں کو دینا چاہیے تھا۔ پاکستان سے یہ بڑی غلطی ہو گئی کہ اقوام متحدہ کی قرار داد پر عمل نہ کیا وہ اس طرح کہ اس قرار داد کے مطابق پاکستان کو کنٹرول لائن سے ہٹ جانا تھا۔ اس کے نہ ہٹنے کی وجہ سے جو نقصان ہوا کہ پاکستان کے حامی علاقے کنٹرول لائن کے اس طرف رہ گئے اور خود مختاری کے حامی مقبوضہ کشمیر میں رہ گئے۔ اگر ہم اقوام متحدہ کی قرار داد پر عمل کرتے ہوئے کشمیر سے نکل آتے تو پوری کشمیر ی عوام بشمول گلگت بلتستان متحد ہو جاتے اور اُن مسلمانوں کی قیادت کرنے کے لئے چوہدری غلام عباس ، سردار ابرہیم ، کے ایچ خورشید اور چوہدری نور حسین ہندوستان پر دباؤ بڑھاتے کہ وہ وعدہ کے مطابق استصواب رائے کروائے ۔ اُس وقت بر صغیر کے عام مسلمانوں کے لئے پاکستان ارض جنت تھا گو کہ کشمیر میں جو نیشنل کانفرنس کی قیادت تھی وہ سیکولر ذہن کی تھی ، ان رہنماؤں کے سامنے وہ کشمیریوں کی حمایت سے محروم ہو جاتی اور پاکستان کے حامی راہنماؤں کے لئے کشمیریوں کو اپنے ساتھ ملانا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان کو پتہ تھا کہ اگر ریفرنڈم ہوا تو نیشنل کانفرنس کی کوئی نہیں سنے گا اور عام کشمیری مسلمان پاکستان کی حمایت میں ووٹ دے گا۔ لہٰذا اُس غلطی کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔ اس ساری صورتحال سے ہندوستان تو فائدے میں رہا ، کیونکہ جس کشمیر پر اُس کا قبضہ ہے وہ بڑی پیداوار دینے والی جگہ ہے جہاں پرپھلوں کے باغات ہیں ، گھریلو دستکاری ہے اور سیر و سیاحت کا بہترین مرکز ہے ، جبکہ آزاد کشمیر ، پوٹھوہار کی طرح کا علاقہ ہے جس میں انسانی آبادی کی پیداوار کے علاوہ کچھ بھی نہیں اور جو جنگلات تھے وہ بھی اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی حد تک ختم کر دئیے گئے ہیں۔ ہر سال پاکستان کو اربوں روپے کی مدد دینی پڑتی ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ مدد پاکستان دنیا بھر سے قرضہ اور امداد لے کر کشمیریوں کو مہیا کر رہا ہے اور اسی لئے دنیا کی چھٹی بڑی فوجی طاقت رکھنے پر مجبور ہے۔ بر صغیر کی اس ساری صورتحال میں مجھے کشمیری معاشی اور تعلیمی لحاظ سے بہت مضبوط لگتے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر تعلیمی لحاظ سے ہندوستان کے ایک صوبہ کیرالہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ اور آزاد کشمیر اسلام آباد کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ ان دونوں کشمیروں میں کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں پر سکول نہ ہو اور اُس میں فرنیچر اور اُستاد نہ ہو۔جبکہ ہندوستان اور پاکستان میں شاید ہی کوئی سکول ہو جس میں پوری سہولیات ہوں ۔ ہندوستان کی پاکستان سے بُری حالت ہے کہ وہاں پر لوگ فٹ پاتھ پر سونے پر مجبور ہیں اور کروڑوں لوگوں کو بیت الخلا کی سہولت حاصل نہیں ۔ اسی طرح پاکستان میں بھی بے شمار کچی آبادیاں آباد ہو چکی ہیں جن میں کوئی بنیادی انسانی حقوق نہیں مل رہے ، لہٰذا اس کا حل میری نظر میں یہ ہے کہ بزور طاقت پاکستان، کشمیر حاصل نہیں کر سکتا ، بات چیت سے
کنٹرول لائن سے پیچھے ہٹا لے ہندوستان پر زبر دست دباؤ پڑ سکتا ہے کہ وہ بھی اپنی فوج نکالے اور کشمیریوں کو خود مختاری دے کر دونوں ملک آزاد کر دیں۔ ورنہ کشمیر بنے گا دونوں ملکوں کا قبرستان ۔ آخر پہ ان تین مہاراجوں نے برصغیر جو کہ سونے کی چڑیا تھی بارود کی پُڑیا بنا دی جو ہماری آمدن تھی اگر برصغیر کے انسانوں پر لگتی تو ہم دنیا میں دونوں ملک عظیم ملک ہوتے۔
راجہ جہانگیر اختر۔
0344-5111174

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں