columns 150

سود /پروفیسرمحمد حسین

اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے اور رسول پاک ؐ نے سود کی حرمت کو بیان فرمایا ہے اور اس پر وعید فرمائی ہے اور فرمایا کہ ہر وہ قرض جو اپپنے ساتھ نفع کو لاتا ہے یہ سود کہلاتا ہے گویا سود یہ ہے کہ آپ کسی کو ایک سو روپیہ قرض

دیتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ ایک مہینے بعد ایک سو دس روپے واپس لوں گا یہ دس روپے زائد لینا سود کہلایا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ نے حرام قرار دیا ہے آج ہماری حالت یہ ہو گئی ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم گناہ کو گناہ سمجھیں کہ یہ ہماری غلطی ہے ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ آج کی جدید دنیا ہے اور یہ تجارتی قرض ہے اور پرانے زمانے میں بہت غربت تھی کوئی آدمی بیمار ہو جاتا یا کسی کے گھر کوئی ماتم ہو جاتی اور اس کے پاس بیماری کے علاج کے لئے اور مرنے والے کے کفن دفن کے لئے رقم نہ ہوتی تو وہ کسی امیر آدمی کے پاس قرض

لینے جاتا تو وہ آدمی کہتا یہ رقم لے جاؤ لیکن واپس کرتے وقت میں اتنی رقم زیادہ لوں گا یہ اس زمانے میں ظلم تھا لہٰذا وہ سود تھا جو غریب آدمی پر ظلم کر کے لیا جاتا تھا اس وجہ سے وہ حرام تھا اور آج تو ایک آدمی نہ غریب ہے نہ مجبور ہے اور نہ قرض دار ہے وہ بینک جاتا ہے اور پچاس لاکھ روپے کاروبار کیلئے قرض لیتا ہے

بینک والے کہتے ہیں پیسہ لے جاؤ اور کاروبار کرو اس میں سے جتنا کماؤ گے اس میں سے دس فیصد تم ہمیں دو گے تو اس میں حرام کیا ہے ؟وہ آدمی مجبور نہیں ہے اور نہ ہی قرض دار ہے وہ جو دس فیصد بینک میں جمع کرائے گا

تو یہ سود نہیں ہے لوگ آج کل اس کو دلیل بنا کر پیش کرتے ہیں جو کہ سرا سر غلط ہے شریعت کا یہ اصول ہے کہ جب کسی چیز کو حرام قرار دیتی ہے تو حرمت کا حکم اس کی ذات اور اس کی حقیقت کے اعتبار سے ہوتا ہے تو یہ کیسا مسئلہ ہے کہ غریب ،مجبور کے لئے تو یہ حرام ہو اور مال دار کے لئے حلال ہو شریعت کے احکام امیر ،غریب سب کے لئے ایک ہوتا ہے جیسا اللہ تعالیٰ نے شراب کو حرام قرار دیا ہے

ہر وہ چیز جو انسان میں نشہ پیدا کرتی ہے وہ حرام ہے اب کوئی آدمی کہے کہ پرانے زمانے میں فلٹر کا کوئی نظام موجود نہیں تھا اور گندے برتنوں میں اس شراب کی تیاری کی جاتی تھی اس لئے وہ حرام قرار پائی اور آج کل بننے والی شراب تو بڑی بڑی مشینوں پر تیار کی جاتی ہے اور عمدہ اور خالص قسم کی شراب ہے لہٰذا یہ وہ شراب نہیں ہے جس کو قرآن پاک میں حرام قرار دیا گیا تھا گناہوں میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑا گناہ سود ہے

اللہ تعالیٰ نے سود خور کے خلاف اعلان جنگ فرمایا ہے آج پوری مملکت سود دینے والی اور سود لینے والی ہے ورلڈ بینک پوری دنیا کو سود دے رہا ہے اور ممالک کے ممالک اس سود کے اندر آ رہے ہیں اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو آج کا سود اس پرانے زمانے کے سود سے بڑا جرم ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا’’ جو لوگ سودی معاملات کرتے ہیں

وہ قیامت کے دن اس طرح کھڑے ہوں گے جیسے کسی آدمی پر جن چمٹ گیا ہو اور وہ بد حواس ہوا ہو ‘‘دوسری جگہ فرمایا :سود کی حرمت کے اعلان کے بعد بھی اگر کوئی شخص سود سے باز نہ آیا

تو وہ جہنمی ہے اور اس میں ہمیشہ رہے گا ۔تیسری جگہ فرمایا: اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’ اگر تم سود سے باز نہ آئے تو اللہ اور اس کے رسولؐ سے جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ ‘‘یہ اتنی سخت وعید ہے کہ اتنی سخت وعید کسی اور ناہ پر نہیں ہے جب یہ آئیت نازل ہوئی تو صحابہ کرامؓ کہنے لگے کہ ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ سے جنگ نہیں کر سکتے لہٰذا ہم نے سود چھوڑ دیا ۔رسول پاک ؐ نے سود کھانے والے ،سودی معاملات میں رقم دینے والے ،سودی معاملہ لکھنے والے اور سود کے معاملہ میں گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی ہے اور پھر فرمایا یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں سود کی حرمت قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت ہے قرآن کی آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ صراحتاََاور وضاحتاََاس کی حرمت کو بیان کرتی ہیں 1988میں جدہ میں 45اسلامی ممالک کے سرکردہ رہنما کا اجتماع ہوا تھا جس میں تقریباََ 200علماء کرام جمع تھے اور وہاں پر آئے ہوئے مختلف ممالک کے علماء کرام نے متفقہ طور پر یہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ اس وقت جو دنیا میں بینکوں کا نظام قائم ہے انٹرسٹ کی بنیاد پر وہ جو لوگوں کو مال دے رہے ہیں یہ سود ہے اور یہ قرآن و حدیث کی رو سے شرعاََ حرام ہے

اس کی حرمت پر ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے یہ وہی سود ہے جس کی حرمت کا اعلان اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا ہے آج کل لوگ کہتے ہیں یہ جو سود ہے یہ ہماری معاشیات کی ضرورت ہے اس کے بغیر ہم بین الاقوامی کاروبار کیسے کریں گے اس کا کوئی متبادل اسلام میں نہیں ہے لیکن یہ بات سرا سر غلط ہے اسلام نے اس کا متبادل پیش کیا ہے ۔
مشارکت :مشارکت یہ ہے کہ دو آدمی آپس میں اکٹھے مل کر کاروبار کریں اور نفع نقصان میں برابر کے شریک ہوں ۔مضاربت :مضاربت یہ ہے کہ ایک آدمی کے پاس مال ہے لیکن وہ کاروبار کرنا نہیں جانتا دوسرا آدمی ہے اس کے پاس کاروبار کے لئے مال نہیں ہے لیکن وہ کاروبار کرنا جانتا ہے اب یہ آدمی مال والے سے اس کا مال لے کر کاروبار کریں وہ آپس میں نفع وغیرہ طے کر لیں ۔
اجارہ :اجارہ یہ ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کہے کہ مجھے فیکٹری لگانے کے لئے مشین چاہیے دوسرے آدمی نے مشین خرید لی اور فیکٹری میں لگا دی اور اب مشین ایک آدمی کی ہے اور استعمال دوسرا آدمی کر رہا ہے مشین خریدنے والا کرایہ طلب کرتا ہے اس سے ایک آدمی کا معاملہ بھی چل رہا ہے اور دوسرے کو فائدہ بھی مل رہا ہے اور یہ

معاملہ حلال بھی ہے ۔حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں جب کوئی شخص کاروبار شروع کرتا تو وہ اس سے پوچھتے تھے کہ کیا تمہیں خریدو فروخت کے مسائل آتے ہیں یا نہیں ؟اگر نہیں آتے تو کاروبار کی اجازت نہیں دیتے تھے اور فرماتے تم خود بھی جہنم میں جاؤ گے اور دوسروں کو بھی لے جاؤ گے ذرا سوچئے ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ جو لوگ اس وقت سود کا کاروبار کر رہے ہیں یا اس کو حلال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ہم اپنی آواز ان تک پہنچائیں اور ان کو اس حرام کام کے کرنے سے روکیں اللہ تعالیٰ ہمیں سود سے بچائے اور حلال کردہ چیزوں سے فائدہ اٹھانے والا بنائے ۔آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں