موجودہ دورِ حکومت میں بھی سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار جوں کی توں ہی ہے بلکہ زیادہ تر دیہی مراکز صحت کی حالت پہلے سے ابتر ہے دیہی مراکزِ صحت میں اکثر جگہ عملہ ہی پورا نہیں ہوتا اور اگر سٹاف ہو بھی تو ڈاکٹر صاحب غائب ہوتے ہیں وہ مل جائیں تو ادویات میسر نہیں ہوتیں اور مشینری تو سرے سے ہے ہی نہیں جن چند بڑے ہسپتالوں میں موجود ہے زیادہ تر ناکارہ حالت میں ہے غریب آدمی جب بیمار ہو جائے تو کسی سرکاری ہسپتال کا رخ کرتا ہے مگر سٹاف اور ڈاکٹرز کی کمی اور ادویات کی عدم دستیابی ایک عام شہری کو اس بنیادی سہولت سے محروم کر دیتی ہے اور بیچارے عوام گلی محلوں قائم عطائی میڈیکل سنٹر زپر جا کر اپنی جمع پونجی تو لوٹاتے ہی ہیں بلکہ کئی ناتجربہ کار سٹا ف کے ہتھے چڑ ھ کر اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں اکثر ممالک میں دیگر شعبوں کی طرح صحت کیلئے بھی ایک مخصوص بجٹ رکھا جاتا ہے اور اسے صرف صحت کے حوالے سے کیے جانے والے دیگر اقدامات ادویات کی فراہمی مشینری اور سٹاف کی کمی کو پورا کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اسی لیے وہاں شرح امراض بھی پاکستان کی نسبت کم ہے اس کمرتوڑمہنگائی کے دور میں جہاں دو وقت کی روٹی غریب کو میسر نہیں وہاں پرائیویٹ علاج کرانے کیلئے ساری زندگی کی جمع پونجی خرچ ہو جاتی ہے حکمران ان سارا مسائل سے بے خبر اپنی خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں ۔ کیا یہ عوام کا حق نہیں کہ انہیں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات میسر کی جائیں مرکز کلر سیداں کے نواح میں BHVپھلینہ بھی اُن مراکز کی فہرست میں سامل ہے جہاں مریضوں کو سہولیات میسر نہیں عمارت خستہ حالی میں اپنی مثال آپ ہے ڈاکٹر اور دیگر عملہ اگر بروقت مل بھی جائے تو ادویات کا مسئلہ اپنی جگہ قائم و دائم ہے مراکز صحت میں ادویات اور دیگر سہولیات کی فراہمی کا کام مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں کیونکہ کچھ عرصہ قبل مرکز صحت ساگری میں ادویات کی عدم فراہمی پر جب اہلیان علاقہ نے احتجاج کیا اور سڑک بلاک کر دی تو ڈی سی او صاحب کے حکم پر ای ڈی او ہیلتھ ڈاکٹرخالد رندھاوا نے آ کر مسائل کے حل کی یقین دہانی کرائی تو مظاہرین منتشر ہو گئے اور اب مسائل حل ہونا بھی شروع ہو گئے ہیں اگر متعلقہ محکمہ جات کے احباب اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے ادا کریں اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں تو شاید ان مسائل میں کمی واقع ہو سکے تحصیل کلر سیداں کے عوام پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا یہ بھی احسان عظیم ہے کہ انہوں نے اس علاقہ کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ اس اہم مسئلہ میں خصوصی دلچسپی لے کر تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال کو ترجیح بنیادوں پر جدید خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا زچہ و بچہ کیلئے الگ بلاک نئی بلڈنگ لیبارٹری شعبہ ایمرجنسی کا قیام کر کے تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال کے فرض شناس ایم ایس ڈاکٹر مشتاق احمد سحر جن کی زیر نگرانی اب 8مختلف سپیشلسٹ ڈاکٹر ہفتے میں 3دن کلر سیداں آ کر مریضوں کا چیک اپ کرتے ہیں شعبہ حادثات (ایمرجنسی ) میں بھی مریضوں کو بروقت اور بہتر علاج معالجہ کی سہولت میسر ہے مگر ادویات کی کمی کا رونا اب بھی باقی ہے جدید ایکسرے مشین اور دیگر مشینری بھی اس ہسپتال کیلئے ضروری ہے جہاں اب ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف اپنی ڈیوٹیاں احسن طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں وہاں اب انہیں ویسا ہی ماحول بھی فراہم کیا جانا چاہیے تا کہ ہر غریب آدمی کو بروقت اور بہتر علاج کی سہولت میسر آ سکے کاش وفاقی وزیر داخلہ کی طرح باقی اراکین اسمبلی اور با اثر حکام اپنے اپنے حلقوں میں موجود مراکز صحت بالخصوص تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال کی طرف توجہ دیں سروے کریں ارباب اختیار کو باور کرائیں اور مسائل کے حل کیلئے کوششیں کریں تو شاید عوام کو صحت کے حوالے سے درپیش مسائل سے چھٹکارا مل سکے ارباب اختیار صحت کے حوالے سے سخت نوٹس لیتے ہوئے جلد از جلد سخت سے سخت احکامات جاری کریں ورنہ یہ بھی کبھی نہ حل ہونے والا مسئلہ بن جائے گا اور غریب عوام پستی ہی چلی جائے گی ۔{jcomments on}
88