درخت انسانی زندگی کی بقاءکیلئے ضروری


وزیر اعلی پنجاب مریم نواز ایک نئی جہت اور ہمت سے کام کرنے کی کوشش کررہی ہیں جو انتہائی خوش آئند ہے۔ عیدالضحیٰ میں صفائی کا انتہائی شاندار انداز میں کام ہوا جسکا کریڈٹ یقینا سی ایم پنجاب اور انکی ٹیم کو جاتا ہے عید کے دنوں میں شدید گرمی نے یہ بات بھی باور کروادی ہے کہ درخت لگانا کتنا ضروتی ہوگیا ہے اگر ہم نے اس پر توجہ نہ دی تو آنے والی نسلیں یقینا ہمیں معاف نہیں کرسکیں گی۔ درخت اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہیں جو نہ صرف زمین کا حسن بڑھاتے ہیں بلکہ انسان، جانور، پرندے، اور ماحول کے لیے زندگی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں۔

آج جب دنیا ماحولیاتی آلودگی، موسمی تبدیلیوں، اور گلوبل وارمنگ جیسے خطرناک مسائل کا سامنا کر رہی ہے، درختوں کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے ۔درخت صرف سایہ نہیں دیتے، یہ دراصل زندگی کے ستون ہیں یہ ہماری زندگی کا ایک انتہائی اہم جزو ہیں درخت فوٹو سنتھیسس (Photosynthesis) کے ذریعے آکسیجن پیدا کرتے ہیں، جو انسانی زندگی کے لیے لازمی ہے۔ ایک مکمل تناآور درخت سالانہ اتنی آکسیجن فراہم کرتا ہے کہ دو انسان باآسانی زندہ رہ سکتے ہیں تو دوسری طرف یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنا یوں درخت زمین کو ٹھنڈا رکھتے ہیں درخت ہی دھول، دھواں، زہریلی گیسیوں کو فلٹر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ درختوں سے بھرپور علاقوں میں سانس کی بیماریاں کم ہوتی ہیں درختوں کی جڑیں زمین کو جوڑ کر رکھتی ہیں، جس سے سیلاب اور زمینی کٹا¶ کا خطرہ کم ہوتا ہے درختوں کی وجہ سے ماحول میں پرندے، حشرات، چھوٹے جانوروں کی نسلیں پھلتی پھولتی ہیں درخت ان سب کا گھر ہوتے ہیں۔

یوں درخت قدرتی نظام کے توازن کو قائم رکھتے ہیں آنے والے وقت میں درختوں کی اہمیت اور بھی بڑھ جائے گی ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر درخت نہ لگائے گئے تو 2050 تک دنیا کے کئی شہر ناقابلِ رہائش ہو جائیں گے شہروں میں بڑھتا ہوا درجہ حرارت صرف درختوں کی کمی کی وجہ سے ہے۔

اگر اب درخت نہ لگائے گئے تو گرمی کی شدت ناقابلِ برداشت ہو جائے گی درخت بارشوں میں اضافہ کرنے کا اہم سبب ہیں ان کے بغیر خشک سالی بڑھے گی اور پانی کا بحران شدت اختیار کرے گادرخت زراعت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے بغیر فصلیں، پھل، اور جانور سب متاثر ہوں گے اور خوراک کا عالمی بحران جنم لے سکتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پنجاب سمیت پورے پاکستان میں ترقی کی آڑ میں درخت بے دریغ کاٹے جا رہے ہیں۔ سڑکوں کی توسیع، نئی ہا¶سنگ سکیمیں، اور صنعتی زونز درختوں کو نگل رہے ہیں۔

ہم نے ترقی کی قیمت اپنے ماحول کی تباہی کی صورت میں چکارہے ہیں جسکا خمیازہ آنے والی نسلیں بھگتیں گی وزیر اعلی پنجاب سے درخواست ہے کہ وہ امسال ساون آنے سے قبل ایسا بڑا پروجیکٹ دیں جو واقعہ ہی گرین پاکستان کی بنیاد اور آنے والے چند سالوں میں ہمیں نظر آئے کہ واقعہ ہی گرین پاکستان نظر آئے اس پروجیکٹ کو یونین کونسل تک وسیع کریں لیکن درخت اتنے بڑے ہونے چاہیے کہ وہ
بڑے جانوروں کے دست برد سے محفوظ رہے مری جیسا علاقہ بھی درختوں کی بے دریغ کٹائی سے محفوظ نہیں کہوٹہ میں ٹمبر مافیا محکمہ جنگلات کے کرپٹ اہلکاروں کی مدد سے تباہیاں پھیر رہے ہیں

حکومت پنجاب کو غلام رسول پاکستانی اورٹیچر عثمان جیسے لوگوں کو سپورٹ کرکے آگے لانا چاہیے یہ وہ لوگ ہیں جو گرین پاکستان اور آنے والی نسلوں کے لیے بلامعاوضہ کام کررہے ہیں جہاں حکومت کی کچھ زمہ داریاں ہیں وہاں ہمیں بھی بحثیث قوم ایک نئے جذبے سے کام کرنا ہو گا اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس روش کو بدلے ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی

ہر شہری کم از کم ایک درخت ضرور لگائے اسکول، کالج اور مساجد میں شجرکاری کو فروغ دیا جائے گھروں میں پودے اگائے جائیں خاص طور پر شہروں میں حکومت قوانین بنائے کہ ہر نئی اسکیم میں مخصوص رقبہ صرف درختوں کے لیے ہودرخت کاٹنے والوں پر جرمانہ اورسخت سزا ہودرخت زندگی کی علامت ہیں۔ اگر ہم زمین کو جینے کے قابل رکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں فوری طور پر درختوں کی اہمیت کو سمجھ کر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ شجرکاری صرف مہم نہیں، بلکہ بقاءکی جنگ ہے۔ آئیے ہم سب مل کر اس زمین کو سرسبز بنائیں تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر، محفوظ، اور قابلِ تنفس دنیا دے سکیں

اپنا تبصرہ بھیجیں