190

داؤس /ظہیر احمد

ہم بچپن میں سنتے تھے کہ فلاں کا پاؤں اتنا داؤس ہے کہ پورا بازار گھوم کے آیا لیکن کہیں سے بھی اس کے سائز کا جوتا نہیں ملا،کبھی کبھی بہت بڑے منہ والے کو بھی داؤس سے تشبیہ دی جاتی تھی اور اگر کوئی چھوٹے ہاتھ والا

کسی مرد یعنی بڑے ہاتھ والے سے ہاتھ ملاتا ہے اور اگر ہاتھ کو زور سے دبائے تو پہلا لفظ منہ سے یہی نکلتا ہے ، اس کا ہاتھ بڑا داؤس ہے ،یعنی کبھی تو داؤس بطور گالی استعمال ہوتا ہے اور کبھی کبھار بزرگ خواتین لاڈ پیار میں بھی بچوں کو داؤس کہہ دیتی ہیں ۔داؤس کا لفظ دراصل عربی کے لفظ ’’ دیوث ‘‘ سے بگڑ کر بنا ہے ۔اور عرب میں صدیوں سے یہی لفظ رائج ہے ۔دیوث کا لفظ انتہائی پرلے درجے کے بے غیرت کے لیے بولا جاتا ہے جو اپنی بیوی ، ماں ، بہن کے سودے کرتا ہے ۔ہمارے معاشرے میں اسے دلال،بھڑوا اور داؤس یعنی دیوث کہا جاتا ہے ۔کوئی بھی غیرت مند مسلمان اس فعل شنیع کی تائید نہیں کرسکتا۔اگر آپ دیوثوں کو دیکھنا چاہیں تو آپ کو مساج سینٹرز ، گیسٹ ہاؤسز،سینما گھر،پارک،اور دھرنوں میں ملیں گے۔جہاں پہ بھیڑ زیادہ ہو گی یہ دیوث وہاں بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں کیونکہ نئے دولتیوں کا ایسے مقامات پہ کثرت سے آنا جانا ہو تا ہے جن کو ان بھڑووں کی تلاش ہوتی ہے۔پوٹھوار اور گاؤں کی زندگی نہایت ہی سادہ ہے ا ور برادری میں لڑکیوں کی عزت کا بہت خیال رکھا جاتا ہے ۔غیر محرم عورت کو ماں ، بہن ، بیٹی کی طرح دیکھا جاتا ہے اس لیے دیہاتوں میں بے حیائی شہروں کی بہ نسبت کم ہے ۔دیہاتوں میں چونکہ بچیوں کے رشتے بھائی ، باپ ، چہچا ، ماموں ہی طے کرتے ہیں اور اس نظام کی وجہ سے طلاق کی شرح ایک فیصد یا اس سے بھی کم ہے ۔مغرب میں چونکہ معاشرہ مادر پدر آزاد ہے اور شادی کی بجائے بوائے فرینڈ ، گرل فرینڈ کا تصور عام ہے ۔ایسے میں شادی دیرپا نہیں رہتی اور زیادہ تر تیس فیصد سے لیکر اسی فیصد تک شادی کے کچھ عرصہ بعد طلاق ہو جاتی ہے ۔کیونکہ مغرب میں طلاق کا حق عورت کو ہے اور عورت طلاق میں جلد بازثابت ہوئی ہے ، بس ایک لڑکے کو طلاق دی تو دوسری بار خاوند نہیں بلکہ لائف پارٹنر اور بوائے فرینڈ چن لیتی ہے ۔اور یوں یہ لوگ حلال کی اولاد سے محروم رہتے ہیں۔ یہ انتہائی مایوس کن امر ہے کیونکہ مغرب میں حلالی بچوں کی شرح انتہائی نیچے گر چکی ہے ۔یہود و نصاریٰ نے مسلمانوں کی حلال آبادی کو کم کرنے کے لیے کئی جتن کیے اور ان کو مسلم ممالک سے کئی دیوث بھی مل گئے جن کی مدد سے اہل مغرب اور یہود نے کئی قسم کی دوائیں متعارف کروائیں ، مگر مسلم اکثریت نکاح و طلاق سے اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہے ، جب تک اہل اسلام اس طرح کے دیوثوں سے محفوظ رہیں گے انشاء اللہ حلال اولادیں پیدا ہوتی رہیں گی۔مغرب میں اولڈ ایج ہاؤسز کے قیام کی بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ حرامی اولاد والدین اور بزرگوں کا احترام نہیں کر سکتی ۔چونکہ گاؤں میں دیوثوں کی دال نہیں گلتی اور بڑی مشکل سے گاہک ملتے ہیں تو وہ پھر شہر کا رخ کرتے ہیں اور کسی پوش ایریا ، ڈیفنس، یا کسی سیکٹر میں منتقل ہو جاتے ہیں ۔وہاں ان کی خوب آؤ بھگت ہوتی ہے اور کسی کو آنٹی شمیم یا جنرل رانی مل ہی جاتی ہے ۔
قرآن کریم سورۃ قلم میں ایک آیت کریمہ اس طرح وارد ہوئی ہے ’’ عتل بعد ذلک زنیم ‘‘ اس میں دو لفظ عتل اور زنیم قابل غور ہیں ۔عتل کا ترجمہ تند گو، سخت گو، اور گردنیں مارنے والا کے کیے گئے ہیں اور زنیم کا ترجمہ حرام زادہ، بدنسل کے کئے گئے ہیں ۔یہ دونوں الفاظ ایک ہی
آیت کریمہ میں استعمال ہوئے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ جو بد نسلا ہوتا ہے وہ ظالم اور تند خو ، گردنیں مارنے بھی ہوتا ہے ۔اہل مغرب چونکہ بد نسل لوگوں سے بھرا پڑا ہے اس لیے یہ لوگ مسلسل مسلمانوں کی گردنیں مار رہے ہیں ، جو کچھ غزہ ، فلسطین ، عراق ، لیبیا ، افغانستان ، شام میں ہورہا ہے ان سب کے پس پردہ آپ کودیوث ہی ملیں گے ۔اور نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جب لوگ ہاتھ میں بینر اٹھائے یا فیس بک پہ غزہ کے لیے پوسٹ شئیر کرتے ہیں کہ ہم عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں ،کیا یہ وہی عالمی ضمیر ہے جس نے بیالیس ملکوں کو ساتھ ملا کر ایک ایسے نہتے ملک پہ چڑھ دوڑے تھے جن کا کہنا تھا کہ ہم لوگ تو کچے گھروں میں رہتے ہیں ، مٹی پہ سو جاتے ہیں لیکن ان لوگوں کا کیا ہوگا جو آسمان چھوٹی عمارتوں کے مالک ہیں اور جنہوں نے آسائش کا سب سامان جمع کر لیا ہے یہ سب باری کی دیر ہے ،ہماری باری پہلے آگئی اور آپ کی آنے والی ہے ۔ اگر آپ اسلام کی ابتدائی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو کافر، منافق، مشرکین تو ملیں گے لیکن دیوثیت مندی کا شکار رہی ۔ یوں کہیے کہ کسی بھلے زمانے کے کفار بھی دیوث نہ تھے ۔اسلام میں شراب نوشی اور زنا شرک کے بعد سب سے بڑھ کر کبیرہ گناہ ہیں ۔حضورﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزآخرت پر ایمان رکھتا ہواسے چاہیے کہ کسی غیر محرم عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے ،جہاں ان عورتوں کا محرم نہ ہو۔کیونکہ ایسی صورت میں ایک تیسرا شیطان بھی موجود ہوتا ہے ۔حضور ﷺ کے ارشاد گرامی سے ایک بنیادی اصول ملتا ہے کہ مرد اور عورت اکٹھے ہی نہ ہوں اور اگر مجبوری سے اکٹھے ہو بھی جائیں تو ان کے ساتھ ایسے اشخاص ہوں جن سے ان کا نکاح حرام ہو ۔اور نہ کوئی دیوث ان کے ہمراہ ہو۔اے ایمان والو، دیوث ہر گز نہ بننا ۔اگرچہ تمہاری بوٹی بوٹی کردی جائے اور نہ کسی صاحب ایمان کو داؤس کہنا کہ یہ گناہ کبیرہ ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں