میں نے کہا سو گئے کیا ۔ہاجرہ نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا نہیں تو ‘اسلم نے لیٹے لیٹے جواب دیا۔کتنا خرچ اٹھ جائے گا آپ کی کتاب پررات بہت ہو چکی ہے سو جاو‘اسلم سیدھا ہو کر لیٹے ہوئے بولا‘تجھ سے کتنی بار کہہ چکا ہوں میرے ساتھ اپنی نیند مت خراب کیا کر ‘
یہ خواب دیکھنے چھوڑ دے ۔اری پگلی ہم غریب لوگ ہیں۔دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ہزاروں بکھیڑے ہیں۔بچوں کی تعلیم ‘تمہاری ادویات کا خرچ۔اوپر سے جوان بیٹیوں کا بوجھ۔میری کتاب وتاب کو چھوڑ۔ان بیچاریوں کی فکر کر۔ جن کے بالوں میں سفیدی روگ بن کر بڑی تیزی سے ابھرتی چلی آتی ہے۔خود ہی تو اکژ کہتے رہتے ہو ‘کاش !میری زندگی میں میری کتاب آ جائے۔رہا سوال بچیوں کا تو اللہ کار ساز ہے۔جب اللہ کو منظور ہو گا وہ بھی ہو جائے گا۔ہاجرہ نے آخری جملہ سرد آہ بھر کر ختم کیا۔اللہ کو بھی پتا نہیں کیا منظور ہے۔جب سے پنشن پر پڑا ہوں‘حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔دفتر دفتر گھوم رہا ہوں۔نوکری نہیں مل رہی۔دل کے جس عارضے کی وجہ سے مجھے ریٹائرڈ کر دیا گیا تھا۔عمر کے ساتھ ساتھ وہ بھی آرے آتا ہے۔وہ جو اکاوئنٹنٹ کی جاب ملی تھی وہاں میرے باس کو میری انقلابی شاعری پسند نہ تھی۔Stupidکہیں کا ۔تو ایسا کر مجھے نیند آ رہی ہے۔سو جا‘اسلم نے قدرے توقف سے کہا۔
آپ بتائیں تو سہی۔شاید میں کہیں سے پیسوں کا بندوبست کر لوں۔کتنے روپے خرچ ہونگے۔ہاجرہ کے لہجے میں محبت بھری ضد تھی۔اسلم بولا۔
عاشقی صبر طلب ہے اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک
ارے بھاگوان تیس پینتیس ہزار سے تو کم ہونے سے رہے ہیں تیرے پاس۔اسلم نے طنزیہ لہجے میں اس سے پوچھا۔اسلم کی آنکھوں سے اب نیند اڑ چکی تھی۔میں ایسا کرتی ہوں ایک ہزار روپے مہینہ کمیٹی ڈال لیتی ہوں۔یہ جو ہم ایک کلو دودھ روزانہ لیتے ہیں نا۔اسے آدھا کلو کر لیتے ہیں اور میں اپنی دوائی بھی کچھ عرصہ کے لئے چھوڑ دیتی ہوں۔اسلم مسکرا کر رہ گیا اور بجائے کچھ کہنے کے خاموش رہا۔تھوڑی دیر بعد ہاجرہ کے ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز آنا شروع ہو گئی۔نیند اب اسلم کی انکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی۔دسمبر کی سرد رات تھی اور اس سردی اور اندھیرے کی ٹھنڈک نے ہر ایک چیز کو اپنے سرد ہاتھوں میں ٹھٹھرا دیا تھا۔اس نے تکیے کے نیچے رکھی سگریٹ کی ڈبیہ سے ایک نیم پیا ہوا سگریٹ نکالا اور اسے سلگا کر ہولے ہولے کش لینے لگا۔وہ شاعر تھا بہت زیادہ نہ سہی مگر اس کے اشعار کو پسند ضرور کیا جاتا تھا۔وہ جس مشاعرے میں جاتا خوب داد پاتا ۔اپنا کلام جس اخبار یا رسالے کو بھجواتا۔شائع ہو جاتا۔ریڈیو سے بھی اس کا انٹر ویو نشر ہو چکا تھا۔ اس کے سامنے درجنوں اس کے ہم عصر شعراء کاکلام جیسے وہ ہمیشہ اپنے کلام سے کم تر سمجھتا تھا۔کتابی شکل اختیار کر چکا تھا۔جب کسی شاعر کی کتاب کی تقریب رونمائی ہوتی تو وہ صاحب کتاب سے کتاب پر اٹھنے والی لاگت ضرور پوچھتا۔گھر آتا تو وہ مشاعرے کی روداد اکژ ہاجرہ اور بچوں کو سناتا۔اپنے کلام پر دی گئی داد کو کبھی کبھار مبالغے کے ساتھ بیان کرتااور اکژ فخر سے کہتا۔دیکھنا جس دن میری کتاب چھپی ادب کی دنیا میں دھماکہ ہو گا دھماکہ۔اخبارات اور ٹی وی پر اس کے تبصرے ہونگے اور بڑے بڑے شاعر اس کے ساتھ صرف ہاتھ ملانے کے گلے ملا کریں گے۔اسلم انہی خیالوں میں گم سگریٹ کے کش پر کش لئے جا رہا تھا۔پھر اس کی آنکھیں بوجھل ہو گئیں اور نیند کی رحم دل دیوی نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔صبح وہ ناشتے سے فارغ ہو کر سائیکل لے کر گھر سے نکل گیا۔جب سے وہ ریٹائرڈ ہوا تھا یہ اس کا معمول بن چکا تھا۔وہ صبح سویرے اخبار خریدتا۔ملازمت کے اشتہارات پڑتا اور نوکری کی تلاش میں نکل جاتا مگر ہمیشہ مایوس لوٹتا۔
دو ماہ یوں ہی بیت گئے۔پھر ایک دن ہاجرہ نے اپنی بیٹی سلمی سے کہا۔بیٹا تمہیں تو پتا ہے میں نے بیس ہزار روپے کی کمیٹی دالی تھی اور دالی اس لئے تھی کہ تمہارے ابا کی کتاب کا بندوبست ہو سکے۔بیٹا تمہارے ابا نے تم لوگوں کے لئے دن رات محنت کی تم دونوں بہنوں کو کالج میں تعلیم دلوائی۔انہیں جو پنشن ملی تھی وہ مکان بنانے میں صرف ہو گئی۔تمہیں یہ بھی پتا ہے کہ ان کی شدید خواہش ہے کہ وہ اپنی شاعری کی کتاب چھپوائیں ۔ہاجرہ نے چولہے کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا:جی امی مجھے پتا ہے۔میری بھی یہی خواہش ہے ۔آپ تو ابا کی شاعری کو شاعری نہیں سمجھتی مگر میری سہیلیاں جب ابو کے شعر پڑتی ہیں تو داد دیے بغیر نہیں رہ سکتی۔
بیٹا اسی لئے تو تمہیں بلایا ہے۔اس کے لئے تمہیں قربانی دینا ہو گی۔ہاجرہ نے چائے کی دیگچی چولہے پر چڑھا دی۔وہ کیا امی جان‘سلمی نے حیران ہو کے پوچھا۔
وہ یہ کہ اب دس ہزار روپے کم پڑتے ہیں۔اگر تو اجازت دے تو میں نے تمہارے لئے جو انگوٹھی بنا رکھی ہے۔اسے بیچ دوں۔اللہ نے چاہا تو اگلی کمیٹی پر اپنی بچی کودو بنوا دوں گی۔ہاجرہ نے سلمی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔سلمی تھوڑی دیر خاموش رہی۔ پھر اس نے لبوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔امی جان۔بس اتنی سی بات۔یہ سب کچھ تو آپ ہی کا ہے۔اس میں پوچھنے کی کیا بات ہے۔ابو کے لئے تو میری جان بھی حاضر ہے۔سلمی نے پیار سے ہاجرہ کا گھٹنا دونوں ہاتھوں میں تھامتے ہوئے اس پر اپنا سر رکھ دیا۔
اسلم کو تین ماہ ہو چلے تھے پبلشر کے ہاں چکر لگاتے ہوئے مگر کتاب کی اشاعت میں ابھی کچھ دیر تھی۔اس کی بے چینی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔وہ پڑوسیوں کے ہاتھ سے کبھی کبھی فون پر بھی اپنے پبلشر سے رابطہ کرتا مگر وہ ہر دفعہ مطلوبہ کاغذ کی عدم دستیابی کا بہانہ اس کے سامنے رکھ دیتا۔پھر ایک شام پبلشر کا فون سننے کے لئے اسے پڑوس میں جانا پڑا۔ اس کے پبلشر نے اسے راجہ بازار کے ایک جلد ساز کا پتہ لکھوایا تھااور کہا تھا کہ وہ جا کر اس سے رابطہ کرے اور جوں جوں کتاب مجلد ہوتی جائے وہ اس سے وصول کرتا جائے۔دوسرے ہی دن اسلم راجہ بازار پہنچ گیا۔اس نے پہلے تو اپنی چھوٹی بیٹی کی لئے ایک گڑیا لی پھر جلد ساز سے اپنی کتاب کی سو کاپیاں اٹھائی اور فوارہ چوک بس سٹاپ تک لے آیا۔اسے روات جانا تھا اور کاپیاں لے جانے کا سستا ترین زریعہ بس تھی اس نے بس کی دو نشستیں قابو کر لی۔ایک پر خود بیٹھ گیا اور دوسری پر کتابوں کے بنڈل رکھ دیے۔پھر اس نے وہ شاپر جس میں گڑیا ڈالی ہوئی تھی کتابوں کے بنڈل پر رکھ دیا۔تھوڑی دیر بعد نہ جانے اس کے جی میں کیا آئی کہ اس نے وہ شاپر اپنی بائیں کلائی میں اڑس لیا۔وہ خوشی سے پھولا نہ سما رہا تھااور جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔تاکہ کتاب بچوں اور ہاجرہ کو دکھا سکے۔ بس اب گارڈن کالج سے گزر زہی تھی۔اس نے بنڈل میں سے ایک کیاب نکالی اور بڑے فخریہ انداز سے اس کی ورق گردانی شروع کر دی۔اس نے دانستہ طور پر بیک پیج سواریوں کی جانب کر رکھا تھا جہاں اس کے دو اشعار تصویر کے ساتھ لگائے گئے تھے۔اس کا دل چاہا کہ اس کے آس پاس کھڑے اور بیٹھے ہوئے مسافر اس سے کتاب لے کر پڑھیں اور پھر اس کو خوب داد دیں۔بالآخر ایک مسافر نے اس سے کتاب مانگ ہی لی ۔اسلم نے مسکراتے ہوئے بنڈل سے ایک کتاب نکالی مگر اس سے پیشتر کہ وہ کتاب اس شخص کے حوالے کرتا ایک زوردار دھماکہ ہوا اوربس کے پرخچے اڑ گئے۔
امدادی ٹیمیں جب زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا رہی تھی تو انہوں نے ایک آدھے جسم والی لاش بھی اٹھا ئی جس کی بائیں کلائی میں ایک شاپر پھنسا ہوا تھا جس میں ایک گڑیا خون میں لت پت پڑی تھی۔لاش کے خون آلادہ چہرے پر کتاب کا ٹائٹل پیج چپک کر رہ گیا تھا۔{jcomments on}