پروفیسر محمد حسین
ہمارے اردگرد کی دنیا وہ نہیں جو ہم دیکھتے ہیں بلکہ وہ ہے جو ہمیں دکھائی جاتی ہے کسی بھی میدان میں اترنے سے پہلے جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو پیمانے ہمارے اپنے نہیں ہو تے بلکہ دوسروں کی آرا ہمارے حوصلوں کی کسوٹی ٹھہرتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم اپنے بارے میں اپنی رائے کا تعین کرتے ہیں ہمارا اپنے بارے میں قائم کردہ تصور ہی اگر درست نہ ہو تو زندگی میں ملنے والے مواقع بھی مصائب محسوس ہوتے ہیں انسان کے لیے سب سے مشکل کام اپنے ہی بارے میں تصورات کو تبدیل کرنا ہے کیوں کہ ان تصورات کی جڑیں ہمارے دل ودماغ میں بہت گہری ہوتی ہیں ہم سب سے زیادہ وقت اپنے ساتھ ہی گزارتے ہیں پھر ہمیں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ میں خود کو بہتر جانتا ہوں اسی وجہ سے یہ واہمہ بھی تشکیل پاتا ہے کہ انسان اپنے بارے میں جو حتمی رائے قائم کر لے اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا لیکن زندگی امکانات کا نام ہے اور انسان وہی ہے جو مرتے دم تک جیتا رہے یہ کام محال نہیں ہے یہ ضروری نہیں کہ خود کو کمتر سمجھنے والا شخص عمر بھر ناکامیاں اور شکست ہی سمیٹتا رہے ہم اپنے منفی رویوں سے نجات پا سکتے ہیں اس مہم کو سر کرنے کے لیے کچھ طریقے آزمائے جا سکتے ہیں کسی بھی مقصد کو حاصل کرنے کا عزم کر لینے کے بعد سب سے پہلے ہمارے دل میں ناکامی کا خوف پیدا ہوتا ہے سرفرازی کی آرزو ہمیں اس قدر بے چین کر دیتی ہے کہ ہم ’’کہیں ایسا نہ ہو جائے ‘‘ کے آسیب کو سر پر خود ہی سوار کر لیتے ہیں مثلا آپ گھر سے کسی اہم انٹرویو یا میٹنگ کے لیے کے لیے نکل رہے ہوں تو اس وقت آپ کے ذہن میں ایسے خدشات بھی گردش کر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں کا گاڑی کا ٹائر پنکچر نہ ہو جائے ٹریفک جام کی وجہ سے تاخیر حتیٰ کہ بڑی بڑی آفات کا اندیشہ بھی خون کی گردش کو اوپر نیچے کر دیتا ہے معمول کے مطابق گھر سے نکلتے ہوئے آپ کو ایسے خیالات کا سامنا ہوتا ہے اس لئے رکاوٹوں کے بارے میں سوچنے کی بجائے امکانات ہی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ہم جب بھی اپنا موازنہ دوسروں سے کرتے ہیں تو اپنے بارے میں ہماری رائے زیادہ تر خراب ہو جاتی ہے اسے ہماری خود اعتمادی مجروح ہو تی ہے اکثر نوجوانوں کی بے چینی کا بنیادی سبب ہی یہ ہوتا ہے تعلیم کے لیے کتنے سال وقف کرنے کے بعد بھی وہ اگر واقف نہیں ہوتے تو اپنی صلاحیتوں سے نہیں ہوتے اکثر لوگ کسی شعبے میں دلچسبی لیتے ہیں محنت کرتے ہیں مگر جب مشکلات کا سامنا ہوتا ہے تو بددل ہو جاتے ہیں پھر وہ دوسروں کو دیکھتے ہیں کہ وہ زیادہ کامیاب ہیں یوں وہ حسد کرنے لگتے ہیں حوصلہ ہار دیتے ہیں اور وہ شعبہ ہی چھوڑ دیتے ہیں ہر فن کے لیے لوگ پیدا کیے گئے ہیں اس دنیا میں اللہ نے ہم سب کے لیے کوئی نہ کوئی کام مخصوص کر رکھا ہے وہ کام صرف ہم کر سکتے ہیں کوئی دوسرا نہیں کر سکتا زندگی میں ہم سب کیلیے کوئی نہ کوئی کردار ہے مگر یہ سب خود بخودنہیں ہو جاتا اس کے لیے جستجو کرنا ہوتی ہے اس دوران ہم سے غلطیاں بھی سرزد ہو تی ہیں لیکن بد دل ہو جانے والے اپنی راہ کھوٹی کر دیتے ہیں اگر ہم واقعی یہ جان لیں کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں تو شاید ایک لمحہ زندہ رہنا بھی دشوار محسوس ہو لیکن اس کے باوجود ہم اپنے بارے میں لوگوں کی ممکنہ آراء کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور الجھنوں کا شکار رہتے ہیں حتیٰ کہ رفتہ رفتہ اپنی ہی نظر اپنی وقعت کھو بیٹھتے ہیں اسکا حل یہ ہے کہ اپنے آپ کو کامیاب اور باوقارتصور کیا جائے لوگوں کو عدم تحفظ کا شدید احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنے خوابوں کی قیمت پرخوف سے مغلوب ہو جاتے ہیں واقعی جب ہم اس قدر خوف زدہ ہو جائیں کہ خوابوں کی پرواہ بھی نہ رہے تو پھر عدم تحفظ کا احساس ہمیں گھیر لیتا ہے تخیل کی دنیا میں خیالوں ہی خیالوں میں ،اعتماد و وقار کے ساتھ کسی مشکل چیلنج کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہیے
مثلا آپ لوگوں کے سامنے بولنے سے گھبراتے ہیں تو ہر روز تصور کی دنیا میں کسی بڑے اجتماع کے سامنے اعتماد سے کھڑے ہو جائیں اور تقریر شرو ع کر دیں روزانہ مشق سے اس قسم کے مثبت تصورات ہمارے ذہن کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور وہ ہمارے لاشعور،ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں ایک لمبے ٹرین یا بس کے سفر پر بھی آپ کوکوئی نہ کوئی ہمرا ہی درکار ہوتا ہے کچھ نہیں تو آپ کتاب یا اخبار وغیرہ پڑھتے ہیں تاکہ سفر میں چلتے رہنے سے جو یکسانیت پید اہو تی ہے اور آپ کی طبیعت کو اکتاہٹ کا شکا ر کرتی ہے وہ کسی طرح دور ہوتی رہے یہی معاملہ زندگی کے سفر کا بھی ہے خود اعتماد ی پیدا کرنے کا ایک یقینی طریقہ یہ ہے کہ زندگی میں بہت سی محبتیں سمیٹی جائیں لہذا مضبوط تعلقات بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ اگر کسی کا کوئی دوست نہیں تو اس کاسادہ سامطلب یہ ہے کہ وہ خود کسی کا دوست نہیں اور جب آپ دوسروں پر اعتماد نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے لیے قابل اعتماد ہوں تو پھرخود اعتمادی کہاں سے پیدا ہو گی؟ ہم اکثر نالاں رہتے ہیں کہ ہماری ناکامی کا سبب ہماری کوئی نہ کوئی محرومی ہے فلاں کو فلاں کامیابی اس لے حالات کی وجہ سے ملی خود سے ہمدردی جتاتے ہوئے در اصل ہم قدرت پر بالواسطہ صلاحیتوں اور مواقع کی تقسیم میں بے انصافی کا گلہ کر رہے ہوتے ہیں ہم زندگی کو اپنے محدود دائرے میں دیکھتے ہیں ذرا سوچیں اور غور کر یں تو معلوم ہوتا ہے کہ جسے ہم لاشعوری یا شعور طور پر نا انصافی گردانتے ہیں وہی دراصل ہمارے لیے موقع ہے آئیڈئیل حالات کسی کو میسر نہیں ہوتے مردمیدان میں اپنا کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس لیے موازنہ اور مقابلہ کے بجائے اپنی اصل قدر کوپہچاننے کی ضرورت ہے ہم کسی سے نہ تو آگے نکلتے ہیں اور
نہ ہی پیچھے رہ جاتے ہیں ہم وہی پاتے ہیں جس کی جستجو کرتے ہیں ۔
149