آزادی صرف یہی نہیں کہ آپ اپنے ملک کا جھنڈا اپنے گھر کی چھت پرلہرا دیں یا جھنڈے کا بیج بنا کر اپنے سینے پر سجا لیں، گلیا ں سجائیں، ملی نغمے گائیں، ملک کا جھنڈا اپنے ہاتھ میں اٹھا کر زندہ باد کے نعرے لگائیں، آتش بازی کریں، جلسے اور ریلیاں نکالیں، تقریریں کریں آزادی کی خوشی میں یہ سب کچھ کرنا بھی آپ کا حق بنتا ہے لیکن پہلے یہ تو جان لیں کہ کیا آپ کو واقعی حقیقی آزادی حاصل ہے اورکیا آپ آزادی پسند ہیں۔ اگر آپ کو حقیقی آزادی نصیب ہے اور آپ نے اپنے ارد گرد لوگوں کو بھی مکمل آزادی کا پورا حق دیا ہوا ہے تو پھر آپ خوشی سے ناچیں گائیں، موج منائیں اور اگر نہیں تو پھر حقیقی آزادی کے لئے جدوجہد کریں اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم حقیقی آزادی کا خواب ہی دیکھ لیں۔ ہمارے ملک کی آزادی کا تصور بھی تو ایک خواب ہی تھا، جس کی تکمیل کے لئے اتنی جدوجہد کی گئی، اتنی قربانیاں دی گئیں، اور بالآخر ایک آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ وطن تو آزاد ہو گیا لیکن بد قسمتی سے وطن میں رہنے والے آزاد لوگ غلام ہو گئے۔ کوئی رسم و رواجوں کا غلام، کوئی قومیت کا غلام، کوئی غیرت کا غلام اور کوئی ان سب غلاموں کا غلام۔ ویسے تو ہم اپنے اپنے گھروں میں اپنی مرضی سے مکمل آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں پہ ہم اپنی یا کسی دوسرے کی آزادی کو ضرور صلب کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کون کتنا آزادی پسند ہے آزادی کا جشن تو سب ہی مناتے ہیں لیکن حقیقی آزادی سب کو نصیب نہیں ہوتی کسی کو سننے کی آزادی نہیں تو کسی کو بات کرنے کی آزادی نہیں، کسی کو گھر جانے کی آزادی نہیں تو کسی کو گھر سے باہر نکلنے کی آزادی نہیں، کسی کو نوکری کرنے کی آزادی نہیں، کسی کو اپنی مرضی سے اپنا جیون ساتھی چننے کی آزادی نہیں، کسی کو تعلیم حاصل کرنے کی آزادی نہیں، کسی کو مذہب کی آزادی نہیں ، کسی کو ووٹ ڈالنے کی آزادی نہیں، کسی کو اختلاف رائے کی آزادی نہیں اور حد تو یہ ہے کہ کسی کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی بھی آزادی نہیں۔اس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ ہم خود ایک دوسرے کی آزادی میں رکاوٹ ہیں، ہم اپنے لئے تو آزادی پسند کرتے ہیں لیکن جب بات دوسروں کی آتی ہے تو ہم ضد پہ اڑ جاتے ہیں کوئی قوم اس وقت تک آزاد نہیں ہو سکتی جب تک اس ملک میں بسنے والے لوگ مکمل طور پر آزاد نہ ہو جائیں انہیں سوچنے کی، بولنے کی اور عمل کرنے کی مکمل طور پر آزادی ہونی چاہئے۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں ہماری زندگیاں اورآزادیاں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ جیسے اگر آپ گھر میں بڑے ہیں تو سب پہ آپ کی مرضی چلے گی، کوئی بھی کام کرنے سے پہلے آپ سے پوچھا جائے گا، اگر وہ کام آپ کی مرضی کے مطابق ہوا تو آپ اس کی اجازت دے دیں گے نہیں تو آپ منع کر دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے کچھ اچھا سوچ کے منع کیا ہو، اس کے پیچھے کوئی بھی محرکات ہو سکتی ہیں، لیکن آپ کے منع کرنے کا مطلب ہے کہ آپ نے اس کی حق تلفی کر دی اور کسی کی آزادی کو صلب کر لیا، چاہے اس کی کوئی بھی وجوہات ہوں۔ اور بعض اوقات مختلف صورت حال میں آپ کو اپنی آزادی پہ بھی کبھی نہ کبھی سمجھوتا کرنا پڑتا ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ ہم کسی کی آزادی کا حق چھینتے ہیں اور کوئی ہماری آزادی ہم سے چھین لیتا ہے کیوں نہ ہم خود بھی آزاد رہیں اور دوسروں کو بھی آزادی سے اپنی زندگی گزارنے دیں ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی کے حقوق کو غصب کریں، کسی ملک کا سربراہ ہونے، گھر کا بڑا ہونے یا کسی ادارے کا سربراہ ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں لینا چاہئے کہ تمام افراد کے حقوق آپ کے ہاتھ میں آ گئے ہیں اور آپ جب چاہیں، جسے چاہیں اور جیسے چاہیں ان حقوق کو بانٹیں گے یا لوگوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیں گے۔ یہ وہ حقوق ہیں جو انسان کے پیدا ہوتے ساتھ ہی اس کو عطا کردیے جاتے ہیں اور مرتے دم تک اس کو حاصل رہتے ہیں اگر آج آپ اپنے بچوں کو یہ حقوق نہیں دیں گے، ان کو زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کی آزادی نہیں دیں گے تو کل یہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کریں گے اور یوں حق تلفی کی یہ رسم نسل در نسل چلتی رہے گی اور غلاموں کے آگے غلام پیدا ہوتے رہیں گے۔ اپنے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کو تمام انسانی حقوق کی بھی تعلیم دیں اور یہ بھی بتائیں کہ جہاں وہ اپنے حقوق کی بات کریں وہیں دوسروں کے حقوق کا بھی احترام کریں۔ اپنے بچوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم نہ کریں ان کو واقعی ہی میں آزاد رہنے دیں جیسے کہ یہ آزاد پیدا ہوئے تھے۔ پھر یہ آزادلوگ جو اپنی آزادی کا جشن منائیں گے تو وہ جشن ہو گا اصل آزادی کا جشن۔{jcomments on}
78