عوامی مسائل کو حل کرنا ہر حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے اور اپنی عوام کی مشکلات کا ازالہ کرنا بھی اسکے فرائض میں شامل ہو تا ہے سابق وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی کے دور اقتدار میں صوبہ پنجاب پٹواری کلچر کے خاتمہ اور عوام کو زمین، جائیدادکے مسائل سے کئی دہائیوں سے الجھے ہوئے لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائز سہولت کے لئے کافی کام کیا گیا مگر بوجہ لینڈریکارڈ سینٹرز کا کام ادھورا ہی تھا کہ مسلم لیگ قائدِ اعظم کے پانچ سال پورے ہو گئے مگر پنجاب میں برسرِ اقتدار آنے والی مسلم لیگ (ن) کے دبنگ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے اس کا بیڑا اٹھایا اور خدا خدا کر کے کئی سالوں کی محکمہ مال کی سعی کے بعد عوام کو خوش خبری دی گئی کہ اب زمین جائیداد کے مسائل نہ صرف آپ کی پہنچ میں ہو ں گے بلکہ کمپیوٹر میں بس اک ’’کلک‘‘ سے آپ کا ریکارڈ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو گا مگر کیا کریں اس نظام کا کہ کئی سال گزرنے کے باوجود پنجاب بھر میں یہ مسائل کم ہونے کی بجائے کئی گنا بڑھ گئے ہیں جس کی واضع مثال موجودہ ’’آراضی ریکارڈ سینٹر‘‘روات ہے سب سے بڑی خرابی تو اس میں یہ بتائی گئی ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کے اپنے حلقہ انتخاب کی یونین کونسل چکری کے موضع ہرنیالی سیداں سے تقریبا نوے کلو میٹر ز کے فاصلہ پر آراضی ریکارڈ سنٹر بنایا گیا اس پر مستعزادیہ کہ اس لینڈ ریکارڈ سینٹر میں ابھی تک نہ ہی تو خواتین اور بزرگ شہریوں کے لئے کوئی کاوئنٹر قائم کیا گیا اور نہ ہی لوگوں کومسائل زمین جائیداد کے مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوئی کوشش کی گئی تحصیل راولپنڈی ابھی تک صرف50 فیصد موضعات کو کمپیوٹرائزد کیا گیا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں بھی ہر دوسری کھیوٹ بلاک کر دی گئی جو خالصتا سادہ لوح زمینداروں کو تنگ کرنے کا کمپیوٹر عملے کا ایک انتہائی بھونڈا حربہ ہے ، مزید برآں تحصیل راولپنڈی کے تقریبا30فیصدموضعات ابھی تک سرے سے کمپیوٹر کی سہولت سے محروم ہیں جو موضعات بندوبست کے زیر کنٹرول تھے ان کے ابھی تک ’’چار سلے‘‘ جمع بندیاں پٹواریوں کے پاس ہیں جب کوئی سائل کمپیوٹرز سینٹرز میں جاتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ ریکارڈ ابھی تک پٹواری کے پاس ہے اور کچھ موضعات کمپیوٹرز میں جا چکے مگر ابھی آن لائن ہونے سے محروم ہیں ان جیسے بے شمار مسائل اس نظام میں موجود ہیں پٹواری گرداور ز اور تحصیل حضرات سے بات کی جائے تو ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم ’’سارے گر‘‘ کمپیوٹرز کے عملہ کو سکھا دیتے تو ہمارا کام ختم ہو جاتا لہذا کچھ کام ہم نے دانستہ اپنے پاس رکھا ہے تا کہ ہمارای بھی’’ دال روٹی چلتی رہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پنجاب حکومت کی نیک نیتی اپنی جگہ مگر غریب عوام کا اس میں کیا قصور ہے جسے ہر قدم پر ذلیل خوار کیا جا تا ہے حکومت پنجاب کو چاہیے کہ اپنی عوام سے کئے گئے وعدہ کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کردہ ’’آراضی ریکارڈ سینٹرز ‘‘ کو حقیقی معنوں میں کمپیوٹرز کیا جائے اور اس نظام میں پائی جانے والی خامیوں کو ’ دور کیا جائے تاکہ عوام کو صحیح معنوں میں ریلیف مل سکے اب حقیقت یہ ہے کہ پنجاب حکومت کامحکمہ مال کے نظام کو کمپیوٹرائز کرنے کا منصوبہ ناکام ہو چکا ہے کیونکہ دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود عوامی مسائل جوں کے توں ،ما لکان اراضی کو پٹواری اور لینڈریکارڈ سنٹر کے عملہ کے درمیان فٹ بال بنا دیا گیا آراضی ریکارڈ سینٹربنائے جانے سے قبل زمینداروں اور مالکان آراضی کو صرف حلقہ پٹواری متعلقہ گرداور ، تحصیلدار کے دفاتر کے چکر لگانے پڑتے تھے اور کوئی نہ کوئی واقفیت، رشوت یا سفارش کا طریقہ اپنا کر سائل اپنا کام کروا لیا کرتے تھے مگر اب میں زمینداروں مالکان آراضی کو مزید الجھا دیا گیا ہے، کمپیوٹرائزدلینڈ ریکارڈ سینٹر کی موجودگی میں مالکان آراضی جب لینڈ ریکارڈسینٹر میں جا کر اپنا فرد ریکارڈ یا کوئی دستاویز طلب کرتا ہے تو اسے متعلقہ پٹواری کے پاس بھیج دیا جاتا ہے کہ آپ کا ریکارڈ ابھی مکمل نہیں لہذا زمیندار پٹواری کے پاس جائیں اور جب پٹواری کے پاس جا کر اپنی ملکیتی زمین کا ریکارڈ طلب کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ پٹواری نے تو ریکا رڈ جمع کروا دیا بس چند ایک کھیوٹ بقایا ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ساری پریکٹس کے بعد مالکان آرضی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ پنجاب حکومت کے اربوں روپے کے تعمیر کردہ آراضی ریکاڑد سینٹرز کا غریب عوام کو کیا فائدہ ہوا سادہ لوح زمیندار اب بھی اپنی ملکیتی زمین کے فرد، انتقال، وراثت،رجسٹری اور دیگر دستاویزات کے حصول کے لئے مہینوں چکر لگانے کے باوجود مایوس واپس گھروں کو لوٹتے ہیں اس سلسلے میں حکومت پنجاب کو چاہئے کہ لینڈ ریکارڈ سنٹر روات ،لینڈریکارڈسینٹر چکلالہ قانگوئی کے ساتھ پنجاب بھر کے آراضی ریکارڈ سینٹرز میں ہر پٹوار سرکل کے پٹواری گرداور اور متعلقہ نائب تحصیلدار کو پابند کیا جائے کہ لینڈ ریکارڈ سینٹرز کے عملہ سے مل کر غریب زمینداروں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں تاکہ اپنی ذاتی آراضی کے متعلق معلومات اور دستاویزات کے حصول کے لئے سادہ لوح اور غریب لوگوں کی بھلائی ممکن ہو سکے اور خادمِِ اعلیٰ پنجاب کا خدمت کا دعویٰ بھی سچ ثابت ہو سکے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ صبح 8بجے جا کر ’’ٹوکن‘‘ حاصل کرنے والے مالکان آراضی کو جب بعد دوپہر اپنے نمبر پر کاؤنٹر پر پتہ چلتاہے کہ اس کا ریکارڈ ابھی پٹواری کے پاس ہے اور اسے دوبارہ پٹواری ،گرداور اور اس کے متعلقہ نائب تحصیلدار کے پاس ہی اپنا رونا رونا پڑے گا۔{jcomments on}
183