436

بیول میں ن لیگ کے دفتر کے قیام کا فیصلہ

ہمارے آباؤ اجداد نے آزادی کے لیے جو قربانیاں دیں موجودہ حالات کے تناظر میں اُن قربانیوں اور تکالیف کی اذیت بڑھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ محنت اور قربانیوں کے بعد جیسا سوچا جائے اگر نتیجہ اس ویسا نہ نکلے تو دُکھ ہونا ایک قدرتی امر ہے۔یہاں بحث طبقاتی کشمکش کی نہیں بلکہ بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی سے پیدا ہونے والے مسائل کی ہے

اللہ رب العزت نے پاکستان کو بے تحاشا قدرتی وسائل سے نوازا ہے لیکن اس کے باوجود ہماری زوال پذیری ہمارے لیے حیران کن ہے اوریہ زوال ہمارے رہبروں‘چوکیداروں اور سرکاری اداروں کی ہوس زر کے باعث ہے ایک حبس کا عالم ہے گھٹن ہے اور گھٹن زدہ اس ماحول میں عوام سسک رہے ہیں وسائل پر قابض افراد کی لوٹ مار کی وجہ سے نعمتوں سے نوازے اس وطن کے باشندے تباہ حال زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ہمارے رہبروں کے نعرے وعدے اور بیانات ایسے ہوتے ہیں جو سننے اور پڑھنے میں بہت حسین دل آویز ولولہ انگیز اورتاثر آمیز ہوتے ہیں لیکن ان پر کسی رہبر نے کبھی عمل نہیں کیا ان کے فرمودات تو بس خوش خطی سے لکھوا کر گھروں مطالعہ گاہوں

اور چوک وچوراہوں میں آویزں کرنے کے لیے ہوتے ہیں یا اخبارات کی خالی جگہوں کو پُر کرنے کے لیے کار آمد ہوتے ہیں۔اچھے کی آس لیے نہ جانے کتنے انسان اس دنیا سے جاچکے اور آنے والی نسلوں کے لیے اچھے اور پرامن ماحول کا خواب بھی موجودہ نسل کی آنکھوں میں ایک اذیت بن کر رہ گیا ہے ہر الیکشن میں ہم نئی امید لیے نئے خواب آنکھوں میں سجائے ان کی باتوں پر ایمان لے آتے ہیں۔لیکن وہ وعدے ہی کیا جو وفا ہوسکیں۔ حالیہ الیکشن میں گوجرخان میں الیکشن لڑنے والی سیاسی جماعتوں نے نئے وعدے وعید کیے تھے لیکن گوجرخان کی سیاست عجب رخ اختیار کرگئی جس کے باعث بہتری کی امید کم کم ہی نظر آتی ہے این اے 52 سے پیپلز پارٹی پی پی 9 سے مسلم لیگ اور پی پی 8 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار فاتح قرار پائے مرکز میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت بننے کے سو فیصد چانس ہیں جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ اپنی حکومت بنا چکی۔پی پی نو میں لیگی امیدوار چاہیں تو باآسانی عوام سے کیے اپنے وعدے پورے کرسکتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی بھی حلقہ این اے 52 میں ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں ہوگی

۔البتہ حلقہ 8 کے عوام شاید حکومت کے خاتمے تک فنڈز کی عدم دستیابی کی کہانی سنتے رہیں گے۔کیونکہ ہمارا یہی المیہ رہا ہے کہ ہر قائم ہونے والی حکومت مخالف جماعت کے ایم پی اے یا ایم این اے کو فنڈز ہی جاری نہیں کرتی اور یہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے اور آگے بھی ہوگا۔اس خدشے کے پیش نظر کچھ مقامی مسلم لیگی حلقہ پی پی 8 کی عوام کے مسائل اور ان کے حل کے لیے سنجیدہ اقدام پر غور کررہے ہیں اس سلسلے میں گذشتہ دنوں بیول کی معروف سیاسی سماجی وکاروباری شخصیت چوہدری وسیم آف فرانس کی ایماء پر ان کے دست راست اور قریبی رفقاء سید شوکت شاہ اور حنیف ملنگی نے حالیہ الیکشن میں این اے 52 سے شکست کھانے والے لیگی رہنماء راجہ جاوید اخلاص سے راولپنڈی ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور حلقہ پی پی 8 میں عوام کو روز مرہ مسائل کے حل اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔اس موقع سید شوکت شاہ کی جانب سے راجہ جاوید اخلاص کو چوہدری وسیم کا پیغام بھی پہنچایا گیا

جس میں تجویز پیش کی گئی کہ چونکہ پنجاب اور مرکز دونوں جگہ مسلم لیگ کی حکومتیں ہیں اس لیے عوام مسلم لیگی اکابرین سے اپنے مسائل کے حل کے لیے امید لگائے ہوئے ہے اس لیے روز مرہ کے عوامی مسائل سننے اور ان کو حل کروانے کیلیے اور عوام سے رابطہ برقرار رکھنے کے لیے بیول میں مسلم لیگ کا آفس قائم کیا جائے۔آفس کو چوہدری وسیم کی ٹیم مینج کرے گی چوہدری وسیم کی جانب سے اس امید کا اظہار کیا کہ گوجرخان کے لیگی رہنماء صرف ان کی سرپرستی کریں۔تاکہ عوام کو اداروں میں رو مرہ کے کاموں کے حوالے سے مدد فراہم کی جاسکے۔

راجہ جاوید اخلاص کی جانب سے اس تجویز کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ انہوں نے اپنے تعاون کی یقین دھانی بھی کروائی۔چوہدری وسیم آف فرانس نے پنڈی پوسٹ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ رمضان شریف کے فوراً بعد بیول میں دفتر کا باقائدہ افتتاع کردیا جائے گا جہاں صبح سے شام تک ان کا ایک نمائندہ موجود رہ کر عوام کی اداروں کے خلاف شکایات لے گا اور شکایت کنندہ کے ساتھ متعلقہ ادارے میں جاکر مسلٰہ حل کروانے کی سعی کی جائے گی۔اگر مسلم لیگ کے اکابرین اپنے دعوے کے مطابق اس پر عمل کرگذرتے ہیں تو اس سے جہاں عوام کو اداروں کی زیادتیوں سے ریلیف ملے گا وہیں مسلم لیگ کی حلقہ میں ساکھ بھی بہتر ہوگی۔کیونکہ مسلم لیگ بارے یہ تاثر عام ہے کہ اس جماعت کے رہنماء عوام سے رابطے رکھنے میں بہت کنجوس واقع ہوئے ہیں چوہدری وسیم آف فرانس پہلی بار سیاسی پلیٹ فارم پر آئے ہیں ان کی علاقے میں سماجی خدمات کو دیکھیں تو یقین کرنا پڑے گا کہ وہ اپنے دعوے کو عملی شکل ضرور دیں گے۔بس انہیں اپنی ٹیم میں مخلص اور قابل بھروسہ افراد بھرتی کرنا ہوں گے۔جو اس دفتر کو سنجیدگی سے چلا سکے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں