بظاہر ایک جمہوری حکومت کے دور میں حالیہ انعقاد پذیر ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات کا مرحلہ نہایت خوش اسلوبی سے مکمل ہوگیا ہے اور اپوزیشن جماعتیں بھی ان انتخابات کی شفافیت پر خاصی مطمئن نظرآتی ہیں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے دور میں جبکہ بلدیاتی انتخابات کافی عرصے سے تعطل کا شکار ہیں تاہم ضمنی انتخابات کے علاوہ کنٹونمنٹ بورڈ کے حالیہ منعقدہ انتخابات میں جمہوری و سیاسی پارٹیوں کو عوام میں اپنی مقبولیت اور سیاسی برتری اور ووٹ کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا کنٹونمنٹ کے انتخابات سیاسی دور حکومت میں انتہائی نچلی سطح کے انتخابات تصور کیے جاتے ہیں اس سے بالاتر بلدیاتی اداروں‘ صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی یا پارلیمانی انتخابات ہوتے ہیں اقتدار میں آنے سے قبل تحریک انصاف کے سربراہ اور موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان بلدیاتی اداروں کی بحالی کے لیے خاصے پرعزم دکھائی دیتے تھے مگر اقتدار میں آکر عملی طور اسکا مظاہرہ ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا اس لیے حال ہی میں ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات پوری قوم میڈیا اور سیاسی حلقوں میں غیر معمولی توجہ کا مرکز بنے رہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ تین برسوں سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود عوام کو ملک میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی دیکھنے کو نہیں ملی تاہم ستمبر میں پنجاب کے آئندہ بلدیاتی نظام کے حوالے سے سفارشات مرتب کر لی گئی ہیں نئے بلدیاتی نظام کے تحت پنجاب میں گیارہ تیار کردہ سفارشات کے مطابق نئے بلدیاتی نظام میں پنجاب میں 25 ضلع کونسل ہوں گے جبکہ ضلع ناظم اور میٹروپولٹین کے میئر کا انتخاب براہ راست اور جماعتی بنیادوں پر ہوگاجبکہ نیبر ہیڈ کونسل‘ ویلیج کونسل اور تحصیل کونسل کا نظام بھی رائج ہوگا نیبر ہیڈ کونسل اور ویلج کونسل کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر ہوگاسفارشات میں کہا گیا ہے کہ ویلیج کونسل کی آبادی 10 سے 20 ہزار افراد پر مشتمل ہوگی جبکہ نیبرہڈ کونسل کی آبادی 15 سے 20 ہزار افراد پر مشتمل ہوگی‘ویلیج کونسل کے ساتھ پنچائت کونسل کانظام بھی متعارف کرایا جارہا ہے اس نظام میں گاؤں کی تمام برادریوں کی اہم شخصیات کو پنچائت کونسل میں نمائندگی دیے جانے کی باتیں بھی زیربحث ہیں تاہم اس بات میں دم زیادہ ہے کہ پنچائیت کونسل کے اراکین کی زیادہ تعداد حکمران جماعت کے حامیوں پر ہی مشتمل ہوگی کیونکہ 5 رکنی پنجائت کونسل کے اراکین کی نامزدگی کا اختیار بھی ویلج کونسل کے چیئرمین کو ہوگا علاقے کی صفائی اسٹریٹ لائٹس اور جاگتے رہنا بھائیوں یعنی چوکیداری نظام کی فعالیت اسکول اور چھوٹے تنازعات کے حل کی ذمہ داری بھی پنچائیت کونسل کی ہوگی نیبر ہڈ کونسل اور ویلیج کونسل میں بزرگ شہریوں کے لئے ایک سیٹ مختص کی جائے گی جبکہ لاہورمیٹروپولٹین کارپوریشن میں نیبر ہڈکونسل کے بجائے ٹاؤن ہوں گے اور ٹاؤن کے میئرز کا انتخاب بھی براہ راست کیا جائے گاپنجاب کے لئے جس بلدیاتی نظام کی منظوری دی گئی ہے اس میں منتخب نمائندوں کی صوابدید پر 60 سے 75 ارب روپے تک کے فنڈز مختص کیے جائیں گے‘حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نئے نظام کے تحت وہ اپنی تمام تر توجہ عوام کی فلاح وبہبود پر دے گی اور ہرسال ترقیاتی بجٹ کا 30 سے 40 فیصد حصہ بلدیاتی اداروں کو دیا جائے گایاد رہے کہ دوسری طرف رواں سال اگست میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں محکمہ بلدیات نے سابقہ بلدیاتی نمائندوں کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا تاہم ابھی تک حقیقی معنوں میں اس فیصلے میں عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آیا پنجاب میں بلدیاتی اداروں کی مدت 31 دسمبر 2021 کو ختم ہورہی ہے تاہم دوسری طرف حکومت سابقہ بلدیاتی نمائندوں کی بحالی کے موڈ میں نہیں ہے اور وہ قانون میں نئی ترامیم کے ذریعے انکا خاتمہ چاہتی ہے جبکہ دوسری طرف حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں فی الحال رواں سال بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوتا نظر نہیں آرہا گزشتہ ہفتے الیکشن کمیشن کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نئی حلقہ بندیاں نئی مردم شماری کیمطابق ہونگی جنکے بعد ہی الیکشن کا انعقاد ممکن ہوسکے گا حکومتی بینچوں پر بیٹھے اکثریتی اراکین کی بھی یہی رائے ہے کہ پہلے یونین کونسل سطح پر گرانٹ جاری کرکے ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح بنیادوں پر مکمل کیا جائے تاکہ عوام میں موجودہ حکومت کے خلاف جو بداعتمادی اور مایوسی پھیلی ہے اسے کم کیا جاسکے اور اسکے بعد بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں موجودہ حالات میں جبکہ مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آچکا ہے اور حکومت کی عوامی فلاح کے حوالے سے کارگردگی بھی صفر ہے تو ایسے حالات میں بلدیاتی انتخابات منعقدہ کرانا حکمران جماعت کیلیے اپنے اقتدار کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہوگا۔
141