وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہدایات کے مطابق کلر سیداں میں ہر چودہ دن بعد پولیس افسران کی طرف سے کھلی کچہری منعقد ہو ا کرے گی جس کا مقصد عوام علاقہ کا پولیس بارے شکایات اور علاقہ میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کی روک تھام ہے اور تھانہ کلر سیداں کی صورتحال کو لمحہ بہ لمحہ مانیٹر کرنا ہے وزیر داخلہ کی طرف سے ایسے اقدامات حوصلہ افزاء ہیں کیوں کہ ان میں ہماری ہی بھلائی ہے اور پولیس کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کا بر وقت ازالہ ممکن ہو سکے گا مگر سوچنے کی بات ہے کہ کیا ایسا ہوتا ممکن نظر آرہا ہے کیا واقعی پولیس افسران صحیح معنوں میں عوامی شکایات کا ازالہ کر رہے ہیں یا محض روٹین ورک کر رہے ہیں ایسی بہتری ابھی تک نظر نہیں آرہی ہے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ پولیس کی طرف سے منعقد کردہ کھلی کچہری میں عام عوام کا جانا ہی مشکل ہو تا ہے اور کوئی چلا بھی جائے تو ماحول ہی ایسا ہوتا ہے کہ عام آدمی خوف محسوس کر تا ہے کیوں کہ آس پاس میں پولیس نفری کی زائد موجودگی بھی باعث خوف ہوتی ہے اور دوسری وجہ کھلی کچہری لگانے والے آفیسر کا پولیس کے جھرمٹ میں بیٹھنا بھی ہے ۔بہر حال اپنے اصلی مقصد کی طرف آتا ہوں سب سے پہلے جو کچہری پچھلی دفعہ لگائی گئی تھی اس پر نگاہ ڈالتے ہیں پچھلی کچہر ی میں عوام کو بالکل بے خبر رکھا گیا تھا جس کی وجہ سے سوائے چند افراد جو کہ پولیس کے منظور نظر تھے عام لوگ نہ آسکے جس پر SP ڈاکٹر غیاث گل نے مقامی پویس سے استفار کیا کہ عوام زیادہ تعداد میں کیوں شرکت نہ کر سکے تو وہاں پر موجود کچھ افراد نے ایس پی کو بتایا کہ اس بارے میں کسی کو اطلاع ہی نہ دی گئی ہے اور بعض لوگ پولیس کے خوف کی وجہ سے بھی نہیں آتے ہیں سلسلہ شروع ہونے پر ٹکال کے رہائشی نے پولیس چوکی سموٹ کے اہلکاروں کے بارے میں شکایت کی جس پر ایس پی نے ایکشن لیتے ہوئے متعلقہ اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کاروائی کا حکم جاری کیا اس کے علاوہ بھی چند شکایات پیش کی گئیں جن کو حل کرنے کا تھوڑا بہت حکم جاری کیا اب دوسری بار مورخہ 4 مارچ کو بھی کھلی کچہر ی منعقد کی گئی سب سے پہلے تو ضرورت اس امر کی تھی کہ گزشتہ کچہری میں پیش ہونے والے مسائل کی پیش رفت کے بار ے میں عوام کو آگاہ کیا جاتا تاکہ عوام مطمئن ہوتے کہ پہلے پیش کیے جانے والے مسائل حل ہوگئے ہیں اور مزید پیش کیے جانے والے بھی حل ہونگے لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے عوام خوش نظر نہیں آرہے تھے بہر حال کھلی کچہری کی کاروائی شروع ہوئی تو پہلے کی طرح بے شمار لوگ پولیس کے خلاف پھٹ پڑے سب سے پہلے ایک خاتون نے تفتیشی افسر پر الزام عائد کیا کہ اس نے مجھ سے رشوت لے کر بھی میرا مسئلہ حل نہ کیا بھلاکھر کے ایک رہائشی نے بھی ایسی ہی ایک شکایت پیش کی کہ ایک مقدمہ کے سلسلہ میں تفتیشی افسر نے اپنی گاڑی میں مجھ سے زبردستی ہزار روپے کا پٹرول ڈلوا لیا جس پر ایس پی نے متعلقہ اے ایس آئی کی نہایت ہی شدید الفاظ میں ڈانٹ ڈپٹ کی اور اے ایس آئی کو حکم دیا کہ بطور رشوت لیا جانے والا ہزار روپیہ فوری واپسی کا حکم دیا جس پر وہاں موجود افراد نے ایس پی کے اس اقدام کو سراہا اور نہایت ہی خوشی کا اظہار کیا لیکن مسئلہ یہ پیدا ہو تا ہے کہ جب پیسے واپس کرا دیے گئے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ الزام ثابت ہو گیا اور اس ثابت شدہ الزام کی سزا صرف ہزار روپیہ واپسی نہیں بنتی تھی اور اس طرح کے اور بھی بے شمار مسائل پیش کیے گئے جن میں منشیات فروشی پولیس کی طرف سے بے بنیاد مقدمات قائم کرنا اورمختلف مقدمات میں نامزد ملزمان کو گرفتار نہ کرنا جیسے مسائل شامل تھے‘ کچھ پر کاروائی کے احکامات جاری کیے گئے اور کچھ بیچ میں ہی چھوڑ دیے گئے وہاں پر موجود افراد میں سے زیادہ تعداد میں اس تمام کاروائی سے مطمئن دکھائی نہ دیے اور اس تمام عمل کو فارمیلٹی ہی قرار دیا ہے پولیس پر عوام کے اعتماد کا ہمیشہ سے ہی فقدان چلا آرہا ہے اور آئے روز اخبارات میں پولیس مظالم بارے خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں وزیر اعلیٰ پنجاب نوٹس بھی لیتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس شرح میں کمی واقع نہیں ہورہی ہے ایس پی کو یہ بات محسوس کرنی چاہیے کہ اس مجمع میں بیٹھے ہر شخص کے چہرے پر پولیس کا خوف نمایاں نظر آرہا تھا کیوں کہ ہر شخص کو یہ معلوم ہے کہ ہماری پولیس جب چاہے جس مرضی کو کسی جھوٹے اور بے بنیاد مقدمہ میں ملوث کر دے کوئی بھی اسے پوچھنے والا نہیں ہے پولیس کو اگر ایس پی کی کچہریوں کا خوف ہو تا تو پہلے کی نسبت ہر اگلی دفعہ شکایات کی تعداد کم ہوتی مگر کلر سیداں میں ہر دفعہ پہلے سے زیادہ مسائل سامنے آتے ہیں اور شکایات کی شرح کم نہ ہونے سے یہ ظاہر ہو تا ہے یہ سب روٹین ورک ہی ہے اور سارے دل بہلانے کے ہی قصے ہیں عام لوگوں سے یہ باتیں ضرور سنی ہیں کہ اس وقت جو ایس ایچ او تھانہ میں تعینات ہے وہ بہت اچھے آفیسر ہیں اور پہلے کی نسبت کچھ بہتری کے لیے کوشاں ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو کلر سیداں کی عوام کے لیے یہ بہت خوش آئند بات ہے اور یہ بات ثابت اس وقت ہوگی جب پولیس کے بارے میں شکایات کم ہونگی ایس پی کو چاہیے کہ اگر انہیں کلر سیداں کے لیے ضرور کچھ کرنا ہی ہے تو سب سے پہلے پولیس کے رویہ کو بہتر بنائیں تھانے کو خوف کی علامت بننے والے اسباب کا سد باب کریں اور جس مقامی پولیس آفیسر پر کوئی الزام ثابت ہوجائے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جائے اور اس کو ملنے والی سزا کے احکامات کھلی کچہری میں دکھائے جائیں تاکہ عوام کو تسلی ہو کہ کچھ ہو رہا ہے مزید یہ کہ تھانہ کلر سیداں کی حدود میں قائم پولیس چوکیوں کے انچارج کو ہر تین ماہ بعد تبدیل کر دینا چاہیے اس سے بھی بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں{jcomments on}
143