102

اپنے حصے کی شمع / محمد اعظم احساس

دن کے دس بجے ہوں گے میں اپنے گاؤں کے چوک میں باربر کی دکان پر بیٹھا داڑھی یعنی خط بنوا رہا تھا باربر اپنے کام میں مصروف تھا لہذا میں اس کے سامنے نہ ہل سکتا تھا نہ بات کر سکتا تھا باہر دارنڈے میں چند احباب ساتھ والی دکان کے حاجی صاحب کے پاس بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے ان کی گپ شپ میں طارق بٹ کا نام بار بار آرہا تھا جس کی وجہ سے میں چوکنا ہو گیا اور میرے کان ان آوازوں کی باز گشت کی جستجو میں طارق بٹ کے ذکر پر مزید کھڑے ہو گئے باربر نے جب میرے چہرے پر پانی چھڑکا ؤ کرکے اس سے صاف کیا تو میری جان چھوٹی جلدی جلدی باربر کے پیسے ادا کیے اور اس کی دکان سے باہر آگیا باہر آکر دیکھا کے میرے دوست ریٹائرڈ صوبیدار سلیم صاحب جو کہ کٹر مسلم لیگی ہیں برآمدے میں حاجی صاحب کے پاس بیٹھے بلند آواز میں طارق بٹ کا کالم پڑھ رہے تھے حاجی صاحب چند سال پہلے مسلم لیگی تھے مگر بعد میں صرف حاجی صاحب رہ گئے اور لیگی نہ رہے لہذا اب جہاں موقع میسر ہو وہ کھل کر مسلم لیگ پر تنقید کرتے ہیں لہذا اب بڑی دلجمعی اور دل چسبی سے صوبیدار سلیم صاحب کی زبانی طارق بٹ کا کالم سن رہے تھے اور ساتھ ساتھ لقمہ دئیے جارہے تھے کیا بات ہے طارق بٹ کی۔واہ واہ طار ق بٹ میں بھی پاس بیٹھ گیا سلیم صاحب کالم پڑھ رہے تھے اور ہم سب سن رہے تھے میں بھی مسلم لیگی ہوں اور کٹر مسلم لیگی۔ طارق بٹ میرا دوست ہے اور خاصا اچھا اور مخلص دوست ہے ایک وقت تھا کہ طارق بٹ بھی مسلم لیگی تھا اور ایک اچھا کمپیئر بھی تھا اور ہے اس لئے 2013کے الیکشن کے دنوں میں چودھری نثار کے جلسوں اور کارنر میٹنگز کی نہ صرف کمپیئرنگ کرتا تھا بلکہ چودھری نثار زندہ باہ کے نعرے نہ صرف خود لگاتا تھا بلکہ سامعین سے بھی جوش و خروش سے لگواتا ۔خیر چھوڑئیے اس الیکشن کے قصے کو آتے ہیں چودھری نثار علی کی طرف خصوصا ان کے وزارت داخلہ کے عہدے کی طرف ۔یہ بات سب پر عیاں ہے کہ جب چودھری نثار وفاقی وزیر داخلہ بنے تو پاکستان کی حالت  دہشتگردی کی وجہ سے انتہائی خراب اور باگفتہ بہ تھی ملک میں امن عنقا تھا مہنگائی عروج پر تھی مجھے یاد ہے کہ اس وقت گھریلو گیس کا سلنڈر 2200روپے کا تھا لوڈ شیڈنگ کا 

کیا کہوں عام آدمی میں مایوسی ہی مایوسی پائی جاتی تھی جہاں تک این اے باون کا تعلق ہے تو اور چھوڑئیے سڑکوں کی حالت دگر گوں تھی پچھلے دنوں مجھے کلرسیداں جاتے ہوئے دوبیرن سے بائی پاس جانا پڑا دوبیرن میں مئی 2013میں بھی گیا تھا لیکن اب جو میں گیا تو حیران ہوا کہ دوبیرن سے بائی پاس سے دوبیرن تک نو تعمیر شدہ موجودہ سڑک انتہائی کشادہ اور قابل ستائش ہے اور ٹریفک رواں دواں اور اگر این اے 52کا ذکر کیا جائے تو پی پی 5کو بھی ہمیں زیربحث لانا پڑے گا جہاں انجینئر قمرالسلام راجہ نہ صرف رکن صوبائی اسمبلی ہیں بلکہ چیئرمین پیف بھی ہیں 2015 میں میری بڑی بیٹی جو ایم اے ایم ایڈ ہے نے ٹیچر کی بھرتی کے لیے اپلائی کیا اس نے این ٹی ایس بھی اچھے نمبروں سے پاس کیا قمرالسلام صاحب کے ساتھ واقفیت کی وجہ سے میں نے ان سے گزارش کی وہ میری مدد فرمائیں مگر وہ نہ صرف 2015میں سلیکٹ ہو سکی بلکہ 2016میں بھی این ٹی ایس اچھے نمبروں سے پاس کرنے کے باوجود سلیکٹ نہ ہو سکی اب میں کیا کہوں یقیناًمیری بیٹی میرٹ پر نہ آسکی ہو گی اس میں قمرالسلام کا کیا قصور اب اس سے میں کیا گلہ کروں کہ وہ میری بیٹی کو سلیکٹ کروا دیتے دراصل ہر بندے کی ایک لمٹ ہوتی ہے اور ہم لوگ اس سے ایسی ایسی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں کہ اگر ہمارا کسی حد تک غلط کام ہماری خواہش کے مطابق پوار نہ ہو سکے تو ہم اس سے قصور وار اور نا اہل ٹھہراتے ہیں اور تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اس بات کو بھی چھوڑئیے سیفران کے وزیر ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل عبدالقادر بلوچ میرے انتہائی مہربانوں میں سے ہیں آرمی میں سروس کے دوران میں ان کا ہیڈ کلرک رہاہوں جبکہ اس وقت وہ بریگیڈئر تھے اور میرے برگیڈ کمانڈ ر 2013میں جب وہ سیفران وزارت سرحدی امور کے وزیر مقرر ہوئے تو میں نے انہیں مبارکباد ی کا خط لکھا اور اپنا نام اور فون نمبر تحریر کیا انہوں نے مہربانی کی اور مجھے ملاقات کے لیے بلا لیا میں حاضر ہوا اور اس کے بعد دوسری مرتبہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے گیا ان سے بیٹے کی نوکری کے لیے عرض کی کہنے لگے بیٹا این ٹی ایس پاس کرو ااور باقی کام مجھ پر چھوڑ دو اب میرے بیٹے سے این ٹی ایس ہی پاس نہ ہو سکا اور وہ تاحال بیروز گار ہے اب میں کیا گلہ کروں کہ میرے بیٹے کو ایک وزیر نوکری نہ دلا سکا اب ایک مرتبہ پھر چودھری نثار کے بارے میں بات ہو جائے چودھری نثار کی ایک مرتبہ ہمارے گاؤں ڈھوک کالیاں سے بشندوٹ روڈ کی چودھری نثار افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے تو میں نے مذکورہ چوک میں انہیں باقی دوستوں کے ہمراہ رسیو کرنے کے لیے موجود تھا میرے ساتھ خاصی تعداد میں دوسرے لوگ بھی کھڑے تھے چب چودھری نثار صاحب تشریف لائے تو میں انہیں پہلے بوقے پیش کیا پھر اپنی شاعری کی کتاب شام ہو چلی احساس اور پیچھے ہٹ کے کھڑا ہو گیا میں نے سن رکھا تھا کہ وہ ہاتھ نہیں ملاتے لیکن اس وقت انہتائی شرمسار ہوا جب انہوں نے خود آگے بڑھ کر مصافحہ کیا ۔اب تو پاکستان کے حالات بہت بہتر ہیں 2013کی نسبت ملک میں زر مبادلہ میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے اگر عمران خان پانامہ لیکس کو ایشو نہ بناتے اور دھرنوں کی سیاست نہ کرتے تو آج حالات کہیں بہتر ہوتے جہاں دھرنوں کی سیاست ہو رہی ہو وہاں ترقی ممکن نہیں یا پھر انتہائی سست رفتار ہو تی ہے آج سی پیک جیسے منصوبے پر بڑی تیزی سے عمل ہو رہا ہے ملک بہتری کی طرف گامزن ہے ملک میں بڑے بڑے شہروں میں میٹرو بسز رواں دواں ہیں وہ میٹرو بسز جنہیں عمران خان اور وسرے اپوزیشن لیدر جنگلہ بس کہتے تھے اور تنقید کے نشتر چلارہے تھے خود کے پی کے میں بھی اب میٹروبس کا منصوبہ زیر تکمیل ہے اور پنجابکی نسبت خاصا مہنگا ۔میں کوئی سیاسی آدمی نہیں ہوں اور سیاست کے حروف امجد سے آگے کچھ نہیں جانتا میرے خیال میں حلقہ این اے باون ہو یا پورا ملک میری دانست میں حالات بہتر ہیں ہمیں اور بالخصوص طارق بٹ جیسے ورسٹائل بندے قسم کے بندے کو گلی نالی کی سیاست سے آگے دیکھنا ہو گا چودھری نثار وزیر داخلہ ہیں اور ان کی ذمہ داری صرف ایک حلقہ پر مذکور نہیں ہوتی ۔آخر میں فیض احمد فیض یہ شعر حلقہ این اے باون کی نذر اور دوسرا شعر جو مرحوم احمد فراز کا ہے وہ طارق بٹ کی نذر
برائے حلقہ۔حلقہ کیے بیٹھے رہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی تو ہے ہر چند کے کم ہے
برائے طارق بٹ ۔شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
03015095396

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں