محمد اعظم احساس ‘
اچانک مجھے زور دار دھچکا لگا اور میں سائیکل سمیت اچھل کر دور جا گرا ۔میرے گرنے کی دھڑام سی آواز کے ساتھ مجھے اپنی بائیں ٹانگ سے بھی آواز آئی اور پھر ہوش نہیں رہا ان دنوں میں راولپنڈی میں ایک ہومیو فارما سیوٹیکل ادویات بنانے والی کمپنی میں بطور اکاونٹنٹ کام کر تا تھا ،میرا تعلق کلرسیداں کے مضافات (موضع بشندوٹ)سے ہے
میں روزانہ صبح آٹھ بجے گھر سے نکلتا اور بس سٹاپ ک کوئی دو کلومیٹر کا فاصلہ کھیتوں سے گزرتی پگڈنڈیوں (آڑیوں)پر بذریعہ سائیکل طے کرتا اس کے علاوہ کوئی متبادل راستہ نہیں تھا ۔ واپسی اسی راستے سے را ت دس بجے کے قریب ہوئی اس دن صبح میں حسب معمول ڈیوٹی پر گیا اور وہاں سارا دن کمپنی میں گزار کر آیا تھا وہاں ٹریکٹر کے ذریعے ہل طلا کر زمین کے مالک نے ٹریکٹر کا راستہ روکنے کے لیے قریبا چار فٹ لمبا اور دو فٹ گہر ا گڑھا کھود دیا تھا جسے اندھیر ے کی وجہ سے نہ تو میں دیکھ سکا
اور نہ مجھے وہاں گڑھے کی توقع تھی کہ صبح جب مین اس راستے سے گزرا تھا تو وہاں کوئی گڑھا وغیرہ نہ تھا چنانچہ میں جب اس جگہ پہنچا تو اترائی کی وجہ سے سائیکل کی رفتار خود بخود نسبتا تیز ہو گئی اور پھر آگے وہی ہوا جو میں اوپر بیان کر دیا ہے ۔
ذرا ہو ش آیا تو بائیں ٹانگ میں درد کا احساس بھی جاگ اٹھا ۔اٹھنا چاہا مگر ناکام رہا ان دنوں گاوں میں مغرب کی اذان کے بعد سناٹا چھا جاتا تھا آپ اندازہ کیجئے گا اکتوبر کا وسط ہو اور رات گیارہ بج رہے ہوں اور آپ ایسی حالت میںویرانے میں بے بس پڑے ہوں رات گئے جہاں میں پڑا تھا وہاں کسی ذی روح کے ہونے کے آثار نہیں تھے ،انتہائی دیر سے آنیوالے راہ گیر بھی اس راستے سے رات آٹھ بجے تک گزر جانے تھے
میں نے ایک بار پھر اٹھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا،کچھ اس لیے بھی اٹھنا محال تھا شائد کہ گرگیا تھا پھر اچانک موبائل فون کا خیال آیا اور امید کی لہر نے مجھے حوصلہ دیا ۔جیب سے موبائل فون نکالا اور کسی نہ کسی طرح اس تاریکی میں گھر والوں کو اطلاع دینے میں کامیاب ہو گیا ۔تقریبا آدھے گھنٹے کے بعد میرے گھروالے پہنچ گئے اور مجھے گھر لے آئے صبح سویرے مجھے سینٹرل ہسپتال (موجودہ بے نظیر ہسپتال) لے جایا گیا جہاں چند دن داخل رہا اور درد کی شدت سے دو چار رہا ہسپتال کا عملہ اپنی مرضی سے کام کرتا ہے
اور میںکوئی عالم لوہار نہیں تھا کہ ”نئی ذلت نوں دکھایا کئی وار میں کسے نے میری گل نہ سنی “ گا کر ہسپتال کے عملے کی توجہ اپنی طرف مبذول کواتا ۔بہرحال ہسپتال چند دن داخل رہا اور میری ٹانگ کو پلستر کر کے فارغ کر دیا گیا مگر بعدا زاں ایک لمبی مدت کی غیر حاضری کی وجہ دفتر سے بھی فارغ کر دیا گیا ۔جب ٹریکٹر کا استعمال اتنا زیادہ نہ تھا اس وقت اتنا خیال کسی کو نہ تھا کہ پگڈنڈیوں کی داڑیاں بنے وغیرہ جو کہ اچھی خاصی چھیڑانی کے ساتھ ہو ا کرتی ہیں
انھیں بھی اکھیڑ کر کاشر رقبہ میں ملایا جائے ۔زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا تھا کہ زمین جہاں ذرا سخت ہوتی وہاں کھلے اور چھڑے راستے ہوا کرتے جہاں سے نہ صرف راہ گیر گزرتے بلکہ گاوں بھر کے مویشی بھی ایسی ہی پگڈنڈیوں سے گزر کر اپنے اپنے بسیر ا ہاوس پہنچ جاتے ،گاوں کی الھڑ دوشیزائیں سر پر دو دو تین تین گھڑے اٹھائے کنویں سے پانی بھرنے ٹولیوں کی شکل میں جایا کرتیں جن لوگوں کے گھروں کے گھر کے قریب سے نزدیکی قصبہ یا بس سٹاپ کو راستہ گزرتا وہ اپنے گھرکے قریب پانی کا ایک کچا گھڑا مسافروں کو پانی کی سہولت مہیا کرنے کو رکھ چھوڑتے اور وقفے وقفے سے بھرتے رہتے کہ مسافروں وک تازہ اور ٹھنڈا پانی دستیاب رہے ۔مسافروں کی خدمت کرنا وہ اپنی اخلاقی اور دینی ذمہ داری سمجھتے تھے۔
آج حالت یہ ہے ٹریکٹر کے ذریعے پگذنڈیوں (آڑیاں ) اکھیڑ کر زیر کاشت رقبہ کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے اور چھوٹی چھوٹی آڑیاں زمین کی نشان دہی کے لیے چھوڑ دی جاتی ہیں بعض حضرات اپنے کھیتوں کے اندر سے گزرنے والے ٹریکٹر ٹرالی کو روکنے کے لیے گڑھے بنا دیتے ہیں
۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہماری پیداوار اتنی ہی ہے جتنی کچھ عرصہ پہلے ہوا کرتی تھی سوائے اس زمانے کے جو بڑی حد تک کھاد اور بروقت بارشوں کا مرہون منت ہے ۔لوگ ٹریکٹر کے ذریعے ایسے راستوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ضریف اور ربیع کی فصل کے دوران ٹریکٹر کے ذریعے یہ کوشش کی جاتی ہے مگر مسافر ہیں وہاں سے گزرتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے پیداوار اتنی ہی رہتی ہے تاہم گڑھے کھودنے سے اس کا خمیاذہ ہم جیسے رات گئے واپس آنے والے مسافروںکو میری طرح بھگتنا پڑتا ہے
ایک زمانہ تھا میں جب انڈیا کا یہ گانا بڑے شوق سے سنتا تھا ”یہ ہریالی اور یہ راستہ ان راہوں میں تیرے میر ے جیون بھر کا ہے واسطہ “۔آج میرے ساتھ پیش آئے ہوئے واقعہ کو چندسال گزر گئے ہیں مگر میری ٹانگ میرے پورے جسم کا سارا وزن سہارنے سے قاصر ہے ۔نوکری جاتی رہی ۔گھر میں پڑا پڑا ٹی وی دیکھتا ہوں یا ریڈیوں سنتا رہتا ہوں ۔ریڈیو پر کبھی کبھا ر اگر یہ گانا بج اٹھے تو میرا ایک ہاتھ غیر ارادی طور پر میری متاثرہ ٹانگ کو سہلاتا ہے اور دوسرے ہاتھسے میں ریڈیو ایک آہ کے ساتھ بند کر دیتا ہوں ۔
پن گھٹ پہ کل کسی نے میرا ہاتھ تھام کر
یوں آنکھ بھر کے دیکھا کہ میں لڑ کھڑا گیا
چنگاریاں سلگنے لگیں دل کے آس پاس
اک بھولا بسرا عہد مجھے یاد آگیا
03015095396