عمران ظفر ارمان‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ موہڑہ نگڑیال
اثر کرے نہ کرے سُن تو لے میری فریاد نہیں ہے داد کا طالب یہ بندہ آزاد
تحصیل کلر سیداں سے 13کلو میٹر مشرق کی جانب یونین کونسل منیاندہ کا سب سے پسماندہ موضع انچھوہا جو دورِ جدید میں بھی دورِ قدیم کا منظر پیش کرتا ہے ۔ قدرتی طور پر تو یہ علاقہ انتہائی خوبصورت ہے مگر حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث اس کا شمار تحصیل کلر سیداں کے پسماندہ ترین علاقے میں ہوتا ہے ۔یوں تو اس علاقے کے لوگ جفاکش اور محنتی ہیں ، معاشی اعتبار سے ان کا زیادہ تر دارومدار کھیتی باڑی ، مال مویشی اور محنت مزدوری پر ہی ہوتا ہے ۔ گزشتہ کہیں دہائیوں سے ان سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف بنا کر نہ صرف انکی ووٹ کو کچرا بنا کر خریدا گیا بلکہ ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ۔
سابقہ ایم پی اے چوہدری خالد مرحوم کے دور میں اس علاقے میں کچھ ترقیاتی کام کرائے گئے جن میں 8کلو میٹر سر صوبہ شاہ تا بنگلہ کھیرلی تک سڑک ، نالہ کانسی پر ایک عدد پل ، بجلی کی فراہمی اور واٹر سپلائی سکیم سسٹم جیسے کام نمایاں ہیں مگر بدقسمتی سے اس کے بعد اس علاقے کو کوئی اچھا نمائندہ نہ ملا ۔ یوں رفتہ رفتہ اس علاقے کے مسائل بڑھتے چلے گئے اور اب نوبت یہاں تک آ چکی ہے یہ علاقہ مسائلستان بن چکا ہے ۔ سابقہ ایم پی اے کرنل محمد شبیر اعوان ( ر) نے اس علاقے کو نظر انداز کیا تو رہی سہی کثر موجودہ ایم پی اے راجہ محمد علی صاحب نے پوری کر دی ۔ گو انہوں نے اس علاقے کے اردگرد بہت سے ترقیاتی کام کرائے مگر پتا نہیں انچھوہا کو پسِ پشت رکھا گیا ۔ دو مرتبہ ایم پی اے بننے کے باوجود اس علاقے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا گیا ۔
اس علاقے کا سب سے بڑا مسلہ ا نچھوہا روڈ جو 1996 ء سابقہ ایم پی اے چوہدری خالد ( مرحوم ) کے دور میں تعمیر کی گئی ۔ اس کے بعد آج تک اس سڑک پر سرکاری طور ایک روپیہ تک خرچ نہ کیا گیا ۔ ہر سال لوگ اپنی آپ مدد آپ کے تحت اپنی استعاعت کے مطابق اس کی مرمت کرتے ہیں ۔ خستہ حالی کے باعث اب اس سڑک پر چلنا تک دشوار ہو چکا ہے اور خاص طور پر مریض کیلئے وبالِ جان بن چکی ہے ۔
کم و بیش 30سال پہلے قائم ہونے والے پرائمری سکول کو آج بھی مڈل کا درجہ نہ مل سکا ۔ یہاں پر قائم پرائمری سکول انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں ۔ ایک پرائمری سکول انچھوہا کا کوئی باقاعدہ راستہ ہی نہیں ۔ طالبِ علم کھیتوں سے گزر کر سکول جاتے ہیں ۔ سکول کی بلڈنگ انتہائی تنگ ہے ۔ بوائز پرائمری سکول کی حالت یہ ہے کہ اس کی چار دیواری محض دو فٹ اونچی ہے ، کمروں میں جگہ جگہ دڑاڑیں پڑ چکی ہیں جو کسی بھی وقت بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہیں اور نہ ہی ان سکول میں کوئی سپورٹس گراؤنڈ ہے ۔ گرلز پرائمری سکول کی حالت یہ ہے وہاں پر پورے سکول میں صرف ایک ہی لیڈیز ٹیچر جو کہ علاقہ کہوٹہ سے تعلق رکھتی ہیں گزشتہ 6سال سے اکیلی اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں ۔ اس پورے علاقے میں میڈیکل کی سہولت کیلئے ایک بھی ڈسپنسری نہیں ہے ۔ نزلہ زکام یا بلڈ پریشر جیسے نارمل بیمار کو بھی کہیں کلو میٹر دور سر صوبہ شاہ کا رخ کرنا پڑتا ہے اس علاقے میں پانی کا کوئی خاطر خواہ سسٹم موجود نہیں ۔ لوگ دور دراز جگہ سے پانی بھر کر لاتے ہیں ۔ کچھ جگہ پر واٹر سپلائی سسٹم موجود تھا مگر اس کو بھی ناکارہ ہوئے 15برس بیت گئے ۔ اسی طرح پی ٹی سی ایل فون کو خراب ہوئے 10برس بیت گئے اب تو کمھبوں تک کے نشان بھی غائب ہو گئے ہیں ۔ بااثر لوگ اس علاقے سے جنگلات کاٹ کاٹ کراس علاقے کو ریگستان میں تبدیل کر رہے ہیں مگر ہمارا یہاں محکمہ جنگلات خرگوش کی نیند سو رہا ہے ۔ اس یونین کونسل کے چیئرمین جو کے الیکشن سے پہلے اس علاقے کی محرومی کو اپنی تقاریر کا حسن بناتے تھے اس کے بعد اس علاقے سے روپوش ہیں ۔ وہ موضع بناہل اور موضع سکرانہ میں انکی خدمات قابلِ ستائش ہیں مگر ناجانے کیوں موضع انچھوہا اور موضع منیاند ہ کا وہ حصہ جو داخلی انچھوہا میں آتا ہے ۔ اس کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ۔
اگر اب بھی حکومتِ پنجاب نے توجہ نہ دی تو چند سالوں میں یہاں پر تھر جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے ۔ وزیرِ اعظم پاکستان محترم شاہد خاقان عباسی صاحب جو کہ اس علاقے کے ایم این اے بھی ہیں علاقہ انچھوہا پر نظرِ کرم کر کے اس علاقے کے مسائل پر خصوصی توجہ دے کر احساسِ محرومی کو ختم کیا جائے ۔
177