آجکل پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک ، سیاستدان ہوں یا عام عوام سب نے سیاست اور جمہوریت کو اہم موضوع بنا رکھا ہے حتی کہ ان لوگوں نے بھی سیاست کے تبصروں میں دلچسپی لینا شروع کر دی ہے جو پہلے نہ لیتے تھے
یہ ایک اچھی بات ہے تمام عوام کو سیاست اور سیاسی حالات پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ تاکہ سب میں سیاسی شعور پیدا ہو سکے۔ میری اس تحریر کا مقصد آپکو اصلی اور نقلی جمہوریت کی پہچان کرواناہے اور اس کے لیے میں نے جس ملک کا انتخاب کیا ہے ہو ہے ’’برطانیہ‘‘۔کیونکہ برطانیہ کا سیاسی اور پارلیمانی نظام دنیا کا سب سے قدیم ترین پارلیمانی نظام حکومت ہے ۔ یعنی کہ آجکل جن جن ممالک میں پارلیمانی نظام حکومت ہے اسکا پودہ برطانیہ نے لگایاتھا۔ دنیا کا سب سے بہترین جمہوری اورپارلیمانی نظام برطانیہ کا ہے اسی وجہ سے برطانیہ کو جمہوریت کا گھر کہا جاتا ہے اور برطانوی پارلیمنٹ کو دنیا کی تمام پارلیمنٹس کی ’’ماں ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب میںیہاں پر آپ کے سامنے اپنے اور برطانیہ کی جمہوریت کا تقابلی جائزہ پیش کرتا ہوں ۔ برطانیہ کا آئین غیر تحریری شکل میں ہے جبکہ ہمارا تحریری شکل میں ۔ برطانیہ میں قانون پر 100%عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہاں پر 10%بھی مشکل ہے۔ برطانوی کابینہ اجتماعی ذمہ داری کی بنیاد پر کام کرتی ہے یعنی کہ ایک وزیر کی غلطی کیوجہ سے پوری کی پوری کابینہ کو وزیراعظم سمیت گھر جانا ہوتا ہے۔ جبکہ یہاں کیا ہوتا ہے آپ بہتر جانتے ہیں۔ برطانیہ میں اگر پہلے ’’ان ہاؤس ‘‘ تبدیلی آئے تو اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل کابینہ پہلے سے بنی ہوئی ہے ۔ یعنی کہ جب حکومتی پارٹی معملات چلانے میں ناکام ہو جائے تو اپوزیشن پر مشتمل کابینہ بر سراقتدار آجاتی ہے اس کابینہ کو ’’شیڈو کابینہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ برطانوی سپیکر مکمل بور پر غیر جانبدار شخص ہوتا ہے۔ اور وہ بلا مقابلہ جیت جاتا ہے یعنی کہ اس کے مقابلے میں کسی امیدوار کو سامنے نہیں لایا جاتا ہے کب کہ یہاں سپیکر حکومتی پارٹی کا ہوتا ہے۔ برطانیہ میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے حکومت اس کو تب تک وظائف دیتی ہے جب تک وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو جاتا جبکہ ہمارے ہاں پر پیدا ہونے والا بچہ ہزارہوں کا قرض اپنے سر پر لیکر آتا ہے ۔ برطانیہ میں لائسنس یافتہ اسلٰحہ ساتھ لیکر چلنے میں پابندی ہے کیونکہ اس کا لائسنس چاردیواری حدود تک ہوتا ہے جوں ہی چاردیواری سے باہر لایا جائے تو اس کا لائسنس منسوخ ہو جاتا ہے۔ جبکہ یہاں پر سر عام اسلحٰہ ساتھ لیکر چلا جاتا ہے، جس کی وجہ سے قتل و غارت کا سلسلہ ہمارے سماج میں عام ہو چکا ہے۔ برطانیہ میں پولیس حکومتی اثرورسوخ سے پاک ہوتی ہے ۔ برٹش عدالتی نظام شفافیت پر مبنی ہے وہاں کسی نے گناہ کو دنیا کی کوئی طاقت سزا نہیں دلوا سکتی جبکہ جس نے جرم کیا ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت بچا نہیں سکتی ۔ حضرت علیؓ قول ہے کو ’’کفر کا بظام تو چل سکتا ہے مگر ناانصافی کا نہیں‘‘ آج ہم دیکھتے ہیں کو مغرب ترقی کی منزلوں کو چھو رہا ہے کیونکہ وہاں انصاف ملتا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں انصاف ملتا نہیں بلکہ بکتا ہے۔برطانیہ کی سالانہ ’جی ڈی پی‘ پچاس اسلامک ممالک جتنی ہے جبکہ برطانوی وزیراعظم خود لوئر کلاس میں سفر کرتا ہے اور جب امریکہ کا دورہ کرتا ہے تو رات ’برٹش ‘ ایمبسی کے کمرے میں قیام کرتا ہے جبکہ ہمارے حکمران کئی کروڑ ایک ایک دورے پر خرچ کر جاتے ہیں ۔ برطانوی وزیراعظم اور وزیر عام عوام کے ساتھ لوکل سفر کرتے ہیں جبکہ ہمارے وزیراعظم اور وزراء کا قافلہ درجنوں گاڑیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور جب یہ گزرتے ہیں تو عام سڑکوں پر روٹ لگا کر بند کر دیا جاتا ہے۔ کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ برطانوی کابینہ میں اس وقت 22وزراء کام کر رہے ہیں جبکہ ہماری وفاقی کابینہ میں 20وزراء مملکت 5,10 اسپیشل اسسٹنٹ،3معاون خصوصی ، پنجاب میں 21وزراء ، سندھ میں 16، کے پی کے میں 12، جبکہ بلوچستان میں 11 وزراء کام کر رہے ہیں ، صوبوں میں مشیروں اور معاون خصوصی کی تعداد الگ سے ہے۔ برٹش دارالعلوم میں متوسط لوگ الیکٹ ہو کر آتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں صرف جاگیردار اور سرمایہ دار ہی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں اب فیصلہ آپ کریں کہ اصلی جمہوریت کون سی ہے۔اور نقلی کون سی؟{jcomments on}