139

اسلام کے ٹھیکدار

افراز اختر ایڈووکیٹ
ایک بہت مشہور لطیفہ ہے کسی گاوں میں ایک سکھ کی دوکان ہوتی تھیں سارے گاؤں کے لوگ اس سے سودا سامان لایا کرتے تھے اس کی اچھی خاصی دوکانداری تھی اس علاقہ کے مولوی صاحب کا کافی سامان ادھار پر جا چکا تھا مولوی صاحب نے پیسے نہیں بجھوائے تھے سو سکھ ان کے پاس اپنے پیسے لینے چلا گیا مولوی صاحب نے سکھ سے کہا کہ تم نے دوکانداری کرنی ہے کہ نہیں ۔سکھ نے انکو مجبور کیا مولوی صاحب نے ٹائم مانگا سکھ واپس چلا گیا۔مولوی صاحب نے جمعہ کی نماز میں ا علان کر دیا کے فلاں سکھ وہابی ہو گیا ہے اس لیے کوئی بھی اس سے سامان نہ خریدے ۔مولوی صاحب کے اعلان کے بعد لوگوں نے اس سکھ سے سامان لینا چھوڑدیا ۔چند دن میں سکھ کا کاروبار ختم ہو گیا سکھ مولوی صاحب کے پاس پہنچا ان سے معافی مانگی کے ائندہ ادھار کے پیسے نہیں مانگے گا اگلے جمعہ پر مولوی صاحب نے اعلان کر دیا کے فلاں سکھ نے ہمارے پاس حاضر ہو کر توبہ کر لی ہے اب وہ وہابی نہیں رہا ہے اس لیے آپ اس سے سامان خرید سکتے ہیں ۔یہ ایک لطیفہ ہے لیکن آپ اس بات سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم لوگ کتنا زیادہ اپنے مولوی حضرات کا احترام کرتے ہیں ان کی مان کر چلتے ہیں ان سے عقیدت ہے ہماری ۔اور ان کی بات کی تصدیق بھی ہم ضروری نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ ہمیں ان کے علم پر بھروسہ ہوتا ہے اور ان کا جو تعلق مسجد سے ہوتا ہے جو ہم سب کے لیے بہت عزت والی جگہ ہے اس بات کا بھی ہمیں خیال ہوتا ہے۔اور ہم ان کو حضور ﷺ کے علم کا وارث سمجھتے ہیں یہ وجہ بھی ہے جو ہم ان کی بات کی پیروی سوچے سمجھے بغیر ہی کرتے ہیں ۔ مگر آج کے بہت سارے نام نہاد ملا حضرات نے اس چیز کا غلط فائدہ اٹھایا ہے اور وہ لوگو ں کی اس لا علمی یا پھر ان کا ا ن نام نہاد ملا حضرات پر اعتبار کو غلط سمت ہی لے گئے اس کا نتیجہ آج آپ دیکھیے کہ جب آپ کسی مسجد میں بیٹھتے ہیں تو آپ کو وہاں سے سیکھنے کو کچھ نہیں ملتا ہے ۔آپ کبھی مشاہدہ کریں کسی بھی مسجد میں جائیں وہا ں پر مولوی صاحب کا بیان سنیں آپ کو اس میں سیکھنے کو کچھ ملے نہ ملے لیکن آپ جب مسجد سے اٹھیں گے تو آپ اپنے ہی کسی مسلمان بھائی کے خلاف دل میں نفرت لے کر اٹھیں گے ۔ آپ کو مسجد میں اللہ پاک یا رسول ﷺ ک بارے میں کچھ پتا چلے نہ چلے سنی،وہابی،دیوبندی،اہلحدیث یا پھر شیعہ کا سبق ضرور ملے گا ۔اور جب آپ مسجد سے نکلیں گے تو آپ کو نماز آتی ہو یا نہیں لیکن آپ کو کسی بھی سنی ،وہابی سے بحث کرنی ضرور آجاتی ہے۔آپ اپنے ہی مسلمان بھائی کے خلاف دل میں نفرت پیدا کر لیتے ہو اور اس کا سبب کون ہوتا ہے ؟؟؟اس کے علاوہ اگر دیکھا جائے تو ہمیں مسجد سے ان نام نہاد ملا حضرات نے ہی دور کیا ہے ان لوگون نے اسلام کے مرکز کو اپنی جاگیر سمجھ لیا ہے جس پر کسی اور کا حق نہیں برداشت کر سکتے آپ دیکھیں صحابہؓ کے دور میں اسلام میں مسجد کو مجلس شورہ (پارلیمنٹ) کی حثییت حاصل تھی بہت سارے فیصلے مسجدمیں کیے جاتے تھے اور مسجد میٹنگ پوائنٹ بھی ہوتا تھا مگر آج ہمارے ان نام نہاد ملا حضرات کے مطابق مسجد میں کوئی بھی ایسا کام جو سوشل لائف سے جڑا ہو وہ منع ہے ۔اسی طرح اسلام کو ان لوگوں نے اتنا سخت کر دیا ہے کہ ہم لوگ بس زرا سی بات پر اسلام کے دائرہ سے باہر ہو جاتے ہیں ۔ایک تعصب سا بھر دیا ہے ان لوگوں نے ہم سب کے درمیان کے ہم اپنے ہی مسلمان بھائی کو دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں ۔ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا کہ اگر کوئی انسان میں ۹۹فیصد گناہ کی زندگی بسر کر رہا ہو اور ۱فیصد اسلام ہو تو وہ تب بھی مسلمان ہو گا اور کفار سے اعلٰی ہو گا مگر ہم لوگ تو زرا زرا سی بات پر اسلام سے خارج کرا دیتے ہیں۔ ہمارے ان ملا حضرات نے اسلام کو اتنا سخت بنا دیا ہے کہ ہمارا کوئی بھی نوجوان جب اسلا م پر عمل کی سوچتا ہے تو اس کے سامنے پتھر کا زمانہ آجاتا ہے یا پھر اس کو اتنا مشکل لگتا ہے کہ وہ مسجد کے نام سے ہی بھاگتا ہے۔اس کے علاوہ اللہ پاک کا نعو ذباللہ ایسا ایک تصور دیا ہے جیسے بس اللہ پاک انسان کو سزا دینے کے لیے ہی بیٹھے ہوے ہیں بس ہم نے ایک غلطی کی اور اللہ پاک نے ہمیں سیدھا جہنم میں بھیج دینا ہے ۔ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ پاک انسان کو ستر ماوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں تو ایسی زات پاک انسان کے ساتھ جو اتنا پیار کرتی ہے اس کے بارے میں ہمیں ایسا سبق دیا جاتا ہے کہ ہم اس سے پیار کرنے کے بجائے ڈرتے ہی رہتے ہیں اور یہ بھی ھمارے ان نام نہاد ملا حضرات کی مہربانی ہے ۔میں اکثر اپنے دوستوں کو کہتا ہوں کہ اگر آپ سجد جا ئیں تو دیکھٰیں گے کہ ہمارے ان نام نہاد مولوی حضرات کی تقریر میں سوائے دوسرے فرقے کو سنانے کہ آپ کو سیکھنے کو کچھ بھی نہٰیں ملے گا ۔ہماری امت میں اورخاص طور پر ملک میں انتشار بہت ہے اور ہم سنی ،دیوبندی اور اب تو حیاتی اور مماتی کی تقسیم سے باہر نہیں نکل پا رہے ہیں اور اس کو ہوا دینے والے کون ہیں یہی نام نہاد ملا حضرات۔ قارئین کرام:اسلام بہت ہی اعلٰی اور جدت پسند مذہب ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کوءٰی شک نہیں ہے یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔یہ ایسا مزہب ہے کہ جو ہمیں امن کی عملی مثالیں دیتا ہے لیکن ہم آج چھوٹے چھوٹے اختلافات پر ایک دوسرے کا قتل عام کر رہے ہیں ۔یہ جانتے ہوے بھی کہ اللہ پاک قرآن شریف میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا گویا اس نے تمام انسانیت کو قتل کیا اور اگر کسی نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی ۔میں اپنے تمام قارئین سے گزارش کروں گا کہ آپ خود سے بھی اسلام کو سمجھیں اور کسی اچھے عالم سے سمجھیں پھر آپ کو پتا چلے گا کہ اسلام کتنا امن پسند مزہب ہے کہ جو انسان کی اتنی عزت کرتا ہے تو مسلمان کی کتنی کرتا ہو گا مگر چند لوگوں نے اسلام کا اتنا غلط زاویہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے کہ ہم نے اسلام کو تعصب کا دین سمجھ لیا ہے اللہ پاک ہمیں سمجھ عطا فرمائے اٰمین۔میں اپنے ان نام نہاد مولوی حضرات سے بھی گزارش کروں گا کہ آپ نے کل اللہ پاک کے دربار میں جواب دہ ہونا ہے سو اس دن سے ڈریں مسلمانوں کو وہ اسلام سکھائیں جو ہمارے نبی پاکﷺ نے ہمیں دیا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں