احسا س ذمہ داری ،،دو الفا ظ سے مل کر بنا کر لفظ احسا س اور ذ مہ داری ۔اللہ تعا لی نے انسا ن کو تما م مخلو قا ت پر فضیلت بخشی ہے اسے اشر ف المخلوقات کا در جہ عطا کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسا ن کو خا لق نے عقل عطا کی سو چنے اور سمجھے کی صلا حیت بخشی ہے انسا ن کو خسیا ت عطا کیں جس سے وہ اپنے اردگر د کے متعلق احسا س کر سکتا ہے یہی احسا س کو خو د کے پا ر ے میں بھی کر سکتا ہے کہ میں کو ن ہو ں ؟ میں کیو ں ہو ں ؟ اور دنیا میں میر ا مقصد کیا ہے یہ ہے اصل احسا س انسا ن کو اللہ پا ک نے دنیا میں بے مقصد تو نہیں بھیجا نہ ہر کسی کو کو ئی ذ مہ دار ی دے کر زمین پر اتا ر ا ہے مگر اب یہ انسا ن پر ہے کہ وہ کیسے اپنے وجو د کو اپنی ذمہ داری کو شنا خت کر سکتا ہے اپنے مقصد اور اپنے فر مش کو پہچاننے کا نا م ہی احسا س ذ مہ دار ی ہے حضر ت علیؓ سے کسی نے سو ال کیاکہ کسی انسا ن کی اگر قیمت لگا ئی ہو تو اسکا معیا ر کیا ہو گا اس کے جو ا ب میں آ پؓ نے فر ما یا کہ احسا س ذ مہ دار ی یعنی کہ جس کے اند ر جتنی احسا س ذ مہ دار ی ہو گا وہ اتنا ہی قیمتی ہو گا تو واضح ہو تا ہے کہ اگر انسا ن نے اپنے فر ض کو نہیں پہچا نا اور اپنے اوپر عا ئد ذ مہ داریو ں کا احسا س نہیں کیا تو اس انسا ن کی کو ئی قد ر و قیمت نہیں وہ بے وقت ہے اگر دیکھا جا ئے تو یہی احسا س ذمہ داری دنیا وی یعنی کا ری زند گی کا رو ح رو اں بھی ہے جو اپنے فر ض کو پہچا ن گیا وہ فلا ح پا گیا نہ صر ف انفر ادی طو ر پر بلکہ بحیثیت مجمو عی بھی وہی ملک اورقو تیں تر قی یا فتہ ہیں جو اپنے فرا ئض اور ذمہ داریو ں سے غا فل نہیں رہے بلکہ انہیں بخو بی نبھا یا ۔ اگر اپنے اردگر د نظر ڈالی جا ئے تو ہر طر ف خو د غر ضی ہی کیو نظر آ تی ہے؟ ہر طرف بد نظمی ہی کیو ں نظر آ تی ہے ؟ بحیثیت قو م پستی ہی کیو ں ہما را مقد ر بنی جا رہی ہے ؟ آ خر ایسا کیو ں ہے اگر ہم اپنے خو د کے اور اپنے اردگر د مو جو د لو گو ں کے رویو ں پر نظر ڈالیں تو اس با ت کا بخو بی انداز ہ ہو جاتا ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے ہم اپنے ہی فر ائض اور ذمہ داریوں سے اسقدر غا فل ہو چکے ہیں کہ اب ہمیں کو ئی بے ایما نی بے ایما نی نہیں لگتی کو ئی غلط کا م غلط نہیں لگتا کیو ں کہ یہ سب آ ہستہ آ ہستہ ہما رے اند ر سر ایت ہو چکا ہے ہمیں بس یہ فکر ہو تی ہے کہ دوسر ے بدل جا ئیں دوسر وں کو ایسا کر نا چا ہیے ویسا کر نا چا ہیے مگر ہم نے کبھی یہ نہیں سو چا کہ آ یا ہم اپنی ذمہ داریا ں ایما نداری سے نبھا بھی رہے ہیں یا نہیں اور در حقیقت ہم اس میں بُر ی طر ح نا کا م ہو تے ہیں ہم یہ بھو ل جا تے ہیں کہ ہم کیسے ایک دو سر ے کے سا تھ بُر ے ہیں کس طر ح ہما رے ہر کا م کا اثر ہم سے منسلک لو گو ں پر پڑتا ہے اور کس طر ح ہر ایک فر د کا فعل پو ری قو م کے افعا ل کے طو ر پر سا منے آ تا ہیں افر اد کے ہا تھو ں میں ہے اقوا م کی تقد یر ہر فر د کے ملت کے مقدر کا ستا رہ اقبا ل جنہیں ہم اپنا قو می شا عر کہتے ہیں جو ہما رے محسن ہیں اپنوں نے بھی اپنی قو م کے ہر فر د کو کہا کہ تمھا ری قو م کی تقدیر صر ف تمھا رے ہا تھ میں ہے ہر ایک فر د سے مر اد صر ف آ پ نہیں بلکہ میں ابھی ہو ں اور ہم سب ہیں یہ افراد کے ہا تھو ں میں ہے کہ اس کی قو م کی تقد یر کیا ہو گی ۔ہم پہلے ہی اپنی قو م کو فلک سے پا تا ل میں لا چکے ہیں اب بھی ہم ملت کے مقد ر کے ستا رے کو رو شن بنا نے والے بن سکتے ہیں ایک تا بند ہ مملکت بنا سکتے ہیں اور ایسا صر ف ایک ہی صو رت میں ممکن ہے جب ہم سب مل کر صر ف اپنی ذمہ داری کا احسا س کر لیں وہ ذمہ داری جو بحیثیت ایک طا لبعلم عا ئد ہو تی ہے اور وہ ذمہ داری جو آ پ کے کا م کے ذریعے آ پ سے منسلک ہے اگر ہم اس ذ مہ داری کو پو رے ایما ن اور پو رے یقین کے سا تھ پو را کر یں تو یقیناًہم ایک با وقا ر ملت کے ایک عظیم مملکت کے اور ایک ایسی قوم کے فر د بن سکتے ہیں جسکا ستا رہ فلک پر سب سے نما یا ں ہو ۔{jcomments on}
69