گذشتہ دنوں ایک انتہائی غریب اور نادار فیملی سے واسطہ پڑا کراچی کے ایک شخص نے ان کی مدد کی اس کے ساتھ ساتھ مزید ایک غریب فیملی سے بھی واسطہ پڑا اور جب ان کا حال غم سنا تو آنکھوں سے آنسو روک نہ پایا چھوٹی سی فیملی دو بچے میا ں بیوی تک وہ شخص مزدوری کر تا رہا تھا رات دیر کو گھر پہنچااور کچھ کھانے کے لیے بھی لے کر آیا لیکن اس کی بیوی جو کہ ایک ماں بھی ہے نہ بتایا کہ میں بچوں کو تھپکی دے کر سُلاچکی ہوں رات گئے بچی بہت زیادہ بیمار پڑ گئی اب وہ ماں جس نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر بچوں کو بھوک سے تو سُلا دیا تھا مگر اب اس کی برداشت ختم ہو گئی حاوند سے کہا کہ کچھ کرو بچی کا رنگ بدلتا جارہا ہے میں ساری زندگی بھوکی رہ لو گی لیکن خدا کے لیے میں اپنی آنکھوں کے سامنے بچوں کی یہ حالت نہیں دیکھ سکتی میاں بیچارہ پریشان دو سو مزدوری ملی تھی جس کا کھانے پینے کا سامان لے آیا تھا۔ پھر وہ اپنی بیوی کی آہ دل کی حالت بیان کی تو اس کو آگے سے بہت تلخ جواب ملا کے دفعہ ہو جاؤ تم نے یہی ڈرامہ لگایا ہوتا ہے ہر روز پھر اس نے بتایا کہ مہربانی کر کے میری مدد کریں میں گھر جا کر اپنی بیوی کو کیا جواب دوں گا جو کہ ہلکان ہوتی جاتی ہے میری بچی کو کچھ ہو گیا تو پھر اس شخص نے جواب دیا کہ کیا ہوگا اگر مر گئی تو کفن دفن کے پیسے مجھ سے لے لینا جب وہ آدمی یہ الفاظ دہرا رہا تھا تو پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع ہوگیا بعد میں بھی خود کو روک نہ پایا تکلیف اس کو حوصلہ دینے کی بجائے میرے آنسو بھی جاری ہوگئے اور بے ساختہ اوپر کی طرف منہ کیا تو مجھے یہی یاد آیا ۔خالق بھی اپنے رزق کی تقسیم دیکھ لے پھر ایک دفعہ میں اپنے پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے نکلا تو ایک شخص سے بات ہوئی تو اس نے اپنی داستان سنائی کہ وہ کسی طرح ریڑھی لگاتا ہے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے ان کے گھر کے حالات ایسے کہ فاقوں تک کی نوبت آجاتی ہے مگر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اس نے بتایا کہ میری بچی کی شادی ہونے والی ہے لیکن روز کے دھکے کھانے کے باوجود میں کچھ نہیں کما سکتا کبھی ادھر سے بھگا دیا جاتا ہے کبھی اُدھر پھر میں نے اس سے پوچھا کہ کتنے عرصے سے ریڑھی لگا تے ہو جواب ملا گذشتہ بیس سال سے پھر اچانک مجھ سے کہا کہ آپ میرا چہرہ نہ دکھائیے گا میر بچی کی شادی ہونے والی ہے تو میں اس کے لیے اپنی جان بھی دینے کے لیے تیا ر ہوں کہیں اس کو یہ نہ پتاچل جائے کہ ابو کسی مشکل میں ہیں قارئین کرام یہ دوسرا موقع تھا جب میں نے اس بات سنی تو بہت رونا آیا مجھے پھر یاد آیا ۔لوگ مسجد کو دلہن بناتے رہے ۔۔اور مفلس کی بچی کنواری رہی۔
گذشتہ بیس سال سے وہ ریڑھی لگا رہا ہے لیکن اگر اس کے حالات میں تبدیلی نہیں آئی تو اس کا ذمہ دار کون ہے وہی لوگ جو کہ پالیسیاں بناتے ہیں اور جس کے نتیجہ میں امیر امیر تر اور غریب غریب ترین ہوتا جاتا ہے آخر کیوں؟ غربت کی چکی میں پیستے ہوئے یہ لوگ بہت ہی دبے ہوئے انداز سے گلہ بھی اپنی زبان پر لاتے ہیں کیوں۔
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
محترم قارئین اہم بحثیت قوم اس حد تک بے حس ہو چکے ہیں کہ اپنے گھر کا گیس کا چولہاجلانے کے لیے کسی کے گھر کا چولہا بجھتا ہے تو بجھتا رہے گزشتہ دنوں جیساکہ ایک خبر تھی کہ کم پریشر کی وجہ سے لوگوں نے کمپریسر خرید لیے ۔کیوں؟ تاکہ ان کا چولہا جل جائے جو معمولی مقدار میں یکساں آرہی ہے وہ ساری ہم کھینچ لیں ۔ ہمارا دہرا معیار ہمارے اپنے لیے سوالیہ نشان بن چکا ایک طرف بڑے بڑے ہوٹلوں پر جرمانے کہ وہ صفائی نہیں رکھتے دوسری طرف اپنی ہی چھیتر چھایا میں غریب لوگوں کے لیے کھانے کی اشیاے سستے بازار کی صورت میں لگادی جاتیں ہیں جہاں سے گندا نالہ بھی گزرتا ہے کیا صفائی ستھرائی عام غریبوں کا حق نہیں تجاوزات کا آپریشن انتظامیہ کا حق ہے کہ شہر کو تجاوزات سے پاک کرے لیکن اس آپریشن کی مد میں حاصل ہونے والی پڑھیوں کی پھٹے اتار دئیے جائیں اور فریم بیچ دیے جائیں گو یا کسی میدان جنگ سے حاصل ہونے والے سامان کو مال غنیمت سمجھ کر آپس میں بانٹا جارہا ہو۔ آخر کیوں؟
ایک لمحہ کے لیے یہ سو چنا ہو گا کہ ہم نے قانون کی پاسداری کرنی بھی ہے اور کروانی بھی ہے کیوں کہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کیے جائیں تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ قارئین کرام اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے انسان کے حالات پھرتے دیر نہیں لگتی وہ لوگ جو کروڑ پتی تھے وہ بھی کوڑیوں کے محتاج ہو کر رہ گئے اور وہ لوگ جو کبھی مفلسی و نادار تھے وہ مال ودولت سے فیض یاب ہو گئے ۔
وقت نہ وہ رہتا ہے نہ یہ جو ہمارے کام آئے گا وہ یہی کے ہم اپنے اردگرد لوگوں کے کتنے کام آئے۔
اور وہ لوگ جو اختیار رکھتے ہیں اور غریب اور بے بس لوگوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں فیض احمد فیض نے یہ کہا تھا کہ
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنھیں کو ئی دعا یاد نہیں
لیکن اقبال نے تو یہ بھی کہا تھا اٹھومیری دنیا کے غریبوں کو جگادو۔۔ اور اگر یہ غریب جاگ گئے تو یقیناًفیض احمد فیض کے دعائیہ نظم کا پہلا فقرہ ہی رہ جائے گا۔
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی۔۔!
مگر سوچنا ہو گا ہربا اختیا رشخص کو۔۔!{jcomments on}
147