اللہ راضی راجپوت‘ چک بیلی خان
دوستا!مجھ سے بچھڑ کر تو کہاں چل دیا ہے
دوستا!تیرے بنا تو یہ جہاں کچھ بھی نہیں
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم فقط سامنے نظر آنے والی صورت کو ہی حقیقت جان لیتے ہیں اور اس کی گہرائی کو جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے ‘جو ہمیں نظر آتا ہے اسی پر اپنی رائے دینے لگتے ہیں اور چاہے وہ غلط ہو اس کو لوح پر لکھے حروف خیال کرنے لگتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ فقط کسی کی غلطی پر تنقید کرنا جانتا ہے اور اسکی اچھائی کو کسی اور سے منسوب کرنے کا ہنر،ان کی زندگی میں بھی لوگوں نے اسی روایت کا دامن پکڑے رکھا ۔مگر بالآخر انہیں یہ کہنا پڑا کہ ہم ایک عظیم شخص اور سہارے سے محروم ہو گئے ملک جہانداد خان(مرحوم) چک بیلی خان کے نوائی گاؤں دھندہ کے رہنے والے تھے اور اگر ایسا کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ اس علاقے کے غریب لوگوں کا روحِ زمین پر واحد سہارا تھا اور اس بات کا ادراک ان کے کوچ کر جانے کے بعد ہوا ۔بظاہر کچھ لوگوں کے نزدیک وہ دشمنی پرست ،انا پرست ،دولت پرست جیسے القاب سے منسوب کیے جاتے ،اور جب ہم ان سے اس متعلق کوئی بات کرتے تو انکی آنکھیں مسکرا دیتیں اور ہونٹ بھی ان کی تائید کرتے۔اور ایسے لگتا جیسے وہ کہہ رہے ہوں۔
بددعاؤں کا دعاؤں کا مزا لیتا ہوں
میں تولوگوں کے رویوں کا مزا لیتا ہوں
درحقیقت وہ کیا تھے اس کا انکشاف انکی وفات کے بعد ہوا،جن لوگوں کا ان کے ساتھ اختلاف تھا وہ بھی نم آنکھیں لیے اظہارِ افسوس کر رہے تھے۔’’ جب کوئی اس جہاں سے چلا جاتا ہے تو اس کی قدر تب ہوتی ہے ‘‘اس منقولہ کی گرہ اس دن مجھ پر کھل رہی تھی میں ساکت کھڑا ہجوم کے احساسات کو سمجھنے کی ناکام حالت میں تھا ،تمام لوگ ان کے غریبوں کی خاطر کئے گئے بے شمار کام اپنے ہونٹوں پر ورد کیے جاتے اور روتے جاتے، تب جا کر مجھے سمجھ آیا کہ لوگوں کی اصل خدمت ڈھنڈورا بجھا کر نہیں خاموشی سے کرنا افضل ہے تب میں نے جانا کہ وہ ان لوگو ں کے لیے کیا تھے وہ اپنی ذات کے لیے کیا تھے ، انسانی فطرت ہے کسی کا احسان بھلا دینا ،اس دن میں سوچ رہا تھا ان لوگوں کے آڑے فطرت کیوں نہ آئی،انکو اپنی انا نے کیوں نہ روکا ، تو اندر سے آواز آئی ،احسان ان کے بھلائے جاتے ہیں جو احسان جتاتے ہیں اور جو احسان نہیں بلکہ فرض سمجھ کر ایسا کریں وہ دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔گھر سے دور رہنے کی وجہ سے کچھ زیادہ ان سے رفاقت قربت کا موقع نہ ملا مگر جن جن لمحات میں وہ میرے ساتھ تھے وہ ناقابلِ فراموش ہیں ،وہ ایک ہنس مکھ ، نرم دل ، صاحبِ سوز و گداز ، ایک یگانہ قدامت و صورت کے مالک تھے ۔ایسے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ ان کی قدر بھی انکے چلے جانے کے بعد ہی ہوتی ہے، مجھے یقین ہے انکی خدمتِ خلق میزان پر بھاری ثابت ہوگی ۔
ایسی باوقار،با ہمت اور بااخلاص شخصیت کے گزر جانے کے بعد خالد شریف کے مشہور زمانہ شعر
’’بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا‘‘
کی تشریح سمجھ آئی ۔ اور تب جانا کہ خالد شریف نے یہ شعر ایسی ہی حالت میں کہا ہوگا جس حالت سے ،میں گزر رہا ہوں ۔
مظلوم کو ظلم سے بچانے کیلئے ظالم کے خلاف آواز اٹھانی پڑتی ہے ،اور ایک انسانیت کا درد سمجھنے والا ہمیشہ ایسا ہی کرتا ہے ، جو لوگ ظالم کے ساتھ ہوتے ہیں ان کو برا بھلا کہہ کر بھلا دیا جاتا ہے مگر جو مظلوم کے ساتھ ہوتے ہیں انہیں،، انہیں زمانہ ملک جہانداد خان جیسے ناموں سے یاد رکھتا ہے۔(دعائے مغفرت)
126