349

کفالت کرنے والے کی ذمہ داریاں

عبدالجبار چوہدری/ کفالت کا مطلب ایسی ذمہ داری ہے جس کے پورا کرنے کی ضمانت ہو مثلا یتیم کی کفالت کا ذمہ اٹھانے والے پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف پرورش کما حقہ کرے گا بلکہ ان کے حقوق،مال ،ان کو لوٹانے کا ذمہ دار ہو گا جس نے یتیم کا مال ہڑپ کیا جائیداد قبضہ کی ،یتیم کے جائز حقوق کو غصب کیا وہ عذاب الہیٰ کا مستحق ہے ۔باپ کے سایہ سے محرومی قسیم ازل سے ہے مگر ان کی وراثت کی پامالی تو اس جہان فانی کے کار پردازوںکی ہے اس لیے کفالت کی ذمہ داری اٹھانے سے پہلے ان پہلووں پر غور بہت ضروری ہے کفالت کھانے کے ڈھیر لگا دینے کا نام نہیں کپڑوں کے انبار پہننے کے لیے مہیا کرنے کا نام نہیں جن کی کفالت کی ذمہ داری اٹھائی جائے انکو ہر جائز حق دینے کا نام ہے کفالت نام پر غلام بنا کر رکھنا ظلم ہے تعلیم سے محروم رکھناان کے ساتھ زیادتی ہے کھانا تو قیدی میں کھاتے ہیں کفالت ایسی نیکی کا نام ہے جو ہر نیکی پر بھاری ہوتی ہے اور اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے والا جنت کا مستحق ہوتا ہے دیگر نیکی کے کاموں میں پیچھے بھی رہ جائے تو تنہا یہ نیکی اسے کامیاب و کامران کر دے گی کیوں کہ اس نیکی میں نیت ، محنت ،اور کوشش شامل ہوتی ہے یہ بہت بڑا امتحان ہوتا ہے اور کامیابی کی صورت میں اس کا انعام بھی اس قدر عظیم ہے یتیم کی کفالت کرنے والا بروز قیامت ہمارے نبی کے اتنا قریب ہو گا جتنی شہادت اور درمیانی انگلی۔
ہمارے پیارے نبی کے چچا حضرت ابوطالب نے جس طرح اس ذمہ داری کو نبھایا تاریخ اسلام کا روشن باب اور انسانیت کے لیے یکتا مثال ہے رو سائے قریش کے ہر قسم کے دباو لالچ ،دکھ ،تکلیف ،قید و بند کی صعوبتیں ان کے عزم و استقلال کو متزلزل نہ کر سکیں حضور کی حمایت سے دست کش کرنے والے وفد کو دیاجانے والا جواب آج بھی کفالت کے رہنما اصول ہیں کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند لا کر رکھ دیا جائے تو بھی میں آپ کی حمایت اور ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹوں گا اس جذبہ تربیت کو رحمتة اللعالمین نبی نے انسانیت کو جس طرح لوٹا یا وہ بھی بے مثال ہے حضور شہزادگان اہلیبیت حضرت حسن ؑ اور حضرت حسین ؑ کے ساتھ گھر سے نماز عید ادا فرمانے جا رہے تھے کہ ایک بچہ روتا ہوا ملتا ہے جس کا باپ فوت ہو چکا تھا آپ اسے لیکر واپس گھر تشریف لاتے ہیں نئے کپڑے بہنا کر تیار کر کے دوش مبارک پہ سوا ر کر کے صلوة عید ادا کرتے جاتے ہیں ۔
ہر صاحب حیثیت ،عہدہ و اقتدار کے مالک شخص کے زیر کفالت چند انسان ہوتے ہیں یہ عارضٰ کفالت ہوتی ہے گھریلو ملازمین کے ساتھ ہمارے معاشرے میں جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے ایسے دل سوز واقعات سانے آتے ہیں جس سے انسانیت شر ما جاتی ہے یہ ہم مسلمان ہی کر رہے ہیں جبکہ ہمارا دین اس کی اجازت نہیں دیتا۔
کفالت کے لیے بے پناہ و سائل ضروری نہیں ہوتے بلکہ جذبہ ،نیک نیتی کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے ایسا دستر خوان جہاں چند افراد کا مل کر کھانا کھا رہے ہوں اور ہر ایک کی کوشش ہو کہ دوسرا ساتھی اچھا کھائے اس کے لیے وہ اپنے سامنے سے کھانا اٹھا کر دوسرے ساتھی کو پیش کرے اور آہستہ آہستہ ساتھ دیتا رہے ایسا دسترخوان بھی کفالت کا منظر پیش کر رہا ہوتا ہے بھوک تو چند گھنٹوں بعد دوبارہ لگنے لگتی ہے مگر آداب کی
پامالی یار رہتی ہے ۔
ہمارے ایک دوست کے والد محترم نے اپنے بھتیجوں کو زیر کفالت رکھا ہے وسائل کی کمی کے باوجود ان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے اب وہ بھتیجے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے ہیں اور اپنے تایا کے دست و بازو بھی بن رہے ہیں بہت سے بے اولاد جوڑے اپنے عزیز رشتہ داروں کے بچوں کو پا ل پوس کر کفالت کر رہے ہیں بعض لوگ وارث نہ ہونے پر کوئی بچہ گود لیتے ہیں اور زیر کفالت رکھتے ہوئے جائیداد تک اس کے نام کر دیتے ہیں بہت سے ادارے بھی یتیم، بے سہارا بچوں کی کفالت کے لیے قائم ہیں قومی سطح پر ” پاکستان سویٹ ہوم “ ادارہ بھی ہے جس کی ذمہ دار راولپنڈ ی کے معروف قانون دان زمرد خان نے اٹھا رکھی ہے اصل روح کے مطابق کفالت یہ ہے کہ جس خاندان برادری میں کسی کو ضرورت ہو وہاں کا صاحب حیثیت شخص کفالت کی ذمہ داری ازخود اٹھا لے اگر باپ کے سایہ سے محروم ہو تو شفقت پدری دے ماں کی گود سے محروم کو ماں کی ظرح سینے سے لگائے بھائیوں کی کمی ہے تو بھائیوں کی طرح ساتھ دے ۔کفالت کی ذمہ داری نبھانے کے بعد اس کی تفصیلات کو اپنے سینے میں دفن کر دے احسان کی طرح بالکل نہ جتلائے بس اجر عظیم کا انتظار کرے جس کا رب کائنات نے وعدہ فرما رکھا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں