کسی جنگل میں سارے جانوروں نے مل کر الیکشن کروانے کا فیصلہ کیا جنگل کے جانوروں کا اتحاد دیکھ کر جنگل کے بادشاہ شیر نے چپ سادھ لی الیکشن کے بعد متفقہ طور پر گلہری
کو جنگل کا نیا بادشاہ چن لیا گیا گلہری سدا کی پھرتیلی کبھی ادھر کبھی ادھر جانوروں کو امید ہو چلی تھی کہ انکے مسائل حل ہونگے شیرجہاں سست جانور تھا من مرضی سے اٹھتا تھاسوتا جاگتا تھا کسی کی جرات نہ تھی کہ اسے کچھ کہ سکے شومئی قسمت گلہری کے منتخب ہوتے ہی کسی شکاری نے بندریا کے بچے اٹھا لیے بندریا
روتی چیختی گلہری کے پاس پہنچی اور اپنا دکھڑا سنایا گلہری نے اسے بٹھایا اور پھدک پھدک کر کبھی ایک درخت پر تو کبھی دوسرے درخت جاتی بندریا نے بے چینی سے پوچھا بادشاہ سلامت کچھ کریں ظالم میرے بچے لے گے ہیں گلہری نے ٹھنڈی سانس لی اور کہاکہ دیکھ میں بھاگ دوڑ کررہی ہوں آگے
تمھاری قسمت بس اسی کہانی کا پارٹ ٹو جاری ہے حلقہ این اے53اور پی پی 10 میں جہاں خیر سے فارم 45اور47کے شور میں جیتنے والے MNAاور MPAموصوف حلقہ کے عوام کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں بس اسی کہانی کاپارٹ ٹو جاری ہے ہمارے سیاست دان ایک ہی انکا تعلق چاہے کسی بھی سیاسی پارٹی سے ایک ہی تھیلی کے چٹے وٹے ہیں سیاست کو عبادت کہتے ہیں لیکن وطن عزیز کے سیاستدانوں کا طرز سیاست کو عبادت کے بجائے منافقت کے طرزپر چلا رہے ہیں حلقہ پی پی 10سے باہمی امداد سے الیکشن جیتے والے اور تقریبا پونے تین سو FIRچوہدری نعیم اعجاز پر حلقہ کے عوام ان دنوں تپے
ہوئے ہیں اس وقت انکے خلاف متعدد FIR کا اندراج ہوا ہے جن میں قبضہ اقدام قتل سمیت متعدد الزامات ہیں دوسری طرف حلقہ کے عوام MNAقمر اسلام راجہ کی متعدد کھلی کچہریوں میں انکے خلاف زمینوں پر قبضہ کی شکایات کرچکے ہیں لیکن مجال ہے کہ قمر اسلام راجہ یا اداروں نے انکے خلاف کوئی ایکشن کیا ہوروڈ کنارے لگے بڑے ہورڈنگ ن لیگ کی سینئر قیادت کی تصاویر
اور ساتھ میں نعیم اعجاز کے فوٹوز سے مزین نظر آتا ہے اب لیگی زرائع یہ بھی دعوی کرتے نظر آتے ہیں کہ راولپنڈی کے تین حلقوں کے امیدواروں کا خرچ برداشت کرنیوالے کو پارٹی قیادت کیسے پوچھ سکتی ہے جو اب تک پارٹی کو کروڑوں دے چکے ہیں حلقہ کے عوام کو یاد ہوگا کہ الیکشن کے دنوں میں سوشل میڈیا سمیت ہر پلیٹ فارم پر چاہے
وہ کارنر میٹنگزتھی یا نجی سفری میٹنگز میں قمر الاسلام راجہ خود چوہدری نعیم اعجاز کو قبضہ مافیا اور نجانے کون کون سے القاب سے نوازتے رہے ہیں پھر چشم فلک نے دیکھا کہ عام آدمی کو 274 مقدمات جن میں قبضہ قتل اقدام قتل کا بتا کر عوام کو ان سے متنفر کیا جاتا رہاموقع ملتے ہیں نہ صرف اسی شخص کے ساتھ خفیہ میٹنگ کرنے بیٹھ گئے بلکہ اپنے کار خاصوں کے ذریعے انہی 274 ایف آئی آرز کے
حامل شخص کو مسلم لیگی راہنما لکھ کر اپنی دوہرے پن کی عکاسی کرتے ہوئے نظر آئے قمر الاسلام راجہ کی نعیم اعجاز سے ہونے والی ڈرائنگ روم کی سطح کی میٹنگ نے جہاں عام آدمی کے ذہنوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیاوہاں پر یہ سوال کھڑا کردیا کہ کل تک جس کے خلاف پوری طاقت اور شدت کے ساتھ عام آدمی کے ذہنوں کی برین واش کیا گیا تو جب موصوف کو زرا سا موقع میسر آیا توایک لمحہ بھی ضائع کیے
بنا اور عام آدمی کو بغیراعتماد میں لیے اسی کے ساتھ جا بیٹھے کہ جس کے خلاف خود راجہ صاحب نے پورے حلقے میں منفی سیاسی ماحول ترتیب دیا ہوا تھاکل تک قبضہ مافیا اور طرح طرح کے القابات سے نوازے جانے والے آج ایک بار پھر عوام کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں لیکن مجال ہے
کہ کسی شخص کو ریلیف ملا ہو حلقہ کے عوام آئے روز سوشل میڈیا سمیت ہر فورم پر چوہدری نعیم اعجاز کیخلاف دہائیاں دیتے نظر آرہے ہیں لیکن مجال ہے کہ قمر اسلام راجہ نے کسی کی داد رسی کی ہو سمجھ نہیں آتا کونسی نادیدہ قوت ہے جس نے جناب کو چکری کے ایک نومولود سیاسی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا عام آدمی کا اور اسکا جواب کون دیگا یہاں سوال ہے عام آدمی کی عزت کا جسے داو پر لگایا گیا ہے
وہ کونسی وجوہات ہیں جسکی بنا پر قمر اسلام راجہ نعیم اعجاز کے سامنے کھڑے نہیں ہوپارہے ہیں لیکن یہاں کس کو عام آدمی کی پرواہ جنکا اپنا جیتا ہواالیکشن تضاد سے بھرپور ہو وہ بھلا حلقہ کے عوام کو کیا دے سکیں گے جیتے ہوئے دونوں MNAاور MPAایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں
وہاں عوام کا استحصال جاری رہیگا کیونکہ جب آپ کے گرد مفاد پرستوں کا گھیرا رہیگا عوام میں رہیگی حلقہ کے عوام کا سوال ہے کہ الیکشن کی دعوے ان پر عمل کون کریگا کہاں گیا عام آدمی کا نعرہ کہاں گئی عوام اسکا جواب آپ سے مانگتی ہے