حضرت شیخ سعدیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک وزیر نے بادشاہ کے خزانے کو بھرنے کے لئے لوگوں کے گھروں کو برباد کرنا شروع کردیا۔ داناؤں نے کہا کہ جو شخص اللہ عزوجل کو ناراض کرے اس لئے کہ مخلوق اس سے راضی ہو اللہ عزوجل اسی مخلوق کو اس کی تباہی پر مامور فرما دیتا ہے۔ بھڑکتی ہوئی آگ بھی کالے دانے کا وہ حشر نہیں کرتی جو کسی کا دل جلانے کے بعد اس دل جلے کے دل سے اٹھنے والے دھوئیں سے ہوتاہے۔ اس بات پر سب متفق ہیں کہ گدھا تمام جانوروں میں سب سے زیادہ ذلیل ہے اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ شکار کر کے کھانے والے شیر سے گدھا بہتر ہے۔ گدھا بدبخت ہونے کے باوجود چونکہ بوجھ اٹھاتا ہے اس لئے اچھا لگتا ہے اور مخلوق کو ستانے والا انسان بوجھ اٹھانے والے گدھے اور بیل سے بدتر ہے۔آمدم برس مطلب۔ بادشاہ کو اس وزیر کی کوئی بات پسند نہ آئی اور اس نے اسے قید خانے میں ڈلوادیا اور طرح طرح کی اذیتیں دے کر اسے ہلاک کردیا۔ اللہ کی رضامندی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک مخلوق کی دلجوئی نہ کی جائے۔ اگر اللہ عزوجل کی مہربانی چاہتے ہو تو مخلوق پر مہربان ہوجاؤ۔جب وہ وزیر قید خانے میں تھا اس کے پاس رعایا میں سے کوئی آیا اور اس کی حالت دیکھ کر کہا کہ بازوؤں میں طاقت ہونے کے باوجود عہدے کے بل بوتے پر مخلوق کا مال ہڑپ کرنا صحیح نہیں۔ سخت ہڈی کو گلے سے تو نگلا جاسکتا ہے مگر وہ ناف میں پہنچ کر پیٹ کو ضرور پھاڑ دے گی۔ بدکار ظالم کے مرنے کے بعد بھی لعنت اس پر ہمیشہ برستی رہتی ہے۔حضرت شیخ سعدیؒ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے جب تمہیں طاقت دی ہے تو تم اس کو لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرو نہ کہ ان پر ظلم کرو۔ ظالم کا انجام بہت برا ہے اور ظالم بدبخت پر اللہ عزوجل کی لعنت ہمیشہ برستی رہتی ہے اور ظالم کواللہ عزوجل عبرت کا نشان بنادیتا ہے۔ ہمارے لئے نمرود، فرعون اور شداد کی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنے ظلم و ستم سے عوام کا جینا دوبھر کردیا پھر جب اللہ عزوجل کا قہر ان پر نازل ہوا انہیں کہیں پناہ نہ ملی۔(عبدالعناب،سردار مارکیٹ)
111