ولی کا لفظی مطلب دوست ہے اور ولی اللہ سے مراد اللہ کا دوست تمام اولیا ء کرام اللہ کے دوست ہیں اور اللہ تعالی اپنے دوستوں کی ہر بات کو شرف قبولیت بخشتا ہے صرف مانگنے کا سلیقہ ہونا چاہیے ایسی ہی ایک ہستی خطہ پوٹھوہار میں دربار عالیہ حضرت بابا غلام باد شاہ کلر سیداں روڈ پر شاہ باغ سے نو تھیہ روڈ پر واقع ہے۔
عرس مبارک ہر سال 11,12 (ہاڑ دیسی مہینہ)کو منعقد ہو تا ہے عرس کی بابرکت تقریبات میں علاقہ بھر سے ہزاروں زائرین شامل ہوتے ہیں۔تحصیل کلر سیداں میں اور بھی بہت سی خانقاہیں مو جود ہیں اور ہر خانقا ہ اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے لیکن دربار بابا غلام بادشاہ کی اہمیت کچھ زیادہ ہی ہے۔نوتھیہ اور آس پاس کے موضع جات کے رہنے والے بزرگوں کے مطابق آج سے تقریبا پانچ سو سال پہلے بابا غلام صاحب کی ولادت پنڈوڑ ی لو ہارں کے ایک گھرانے میں ہوئی آپ کے والد کا نام فقیر محمد تھا
آپ کے والدین زندگی میں مختلف جگہوں پر رہائش پذیر رہے بابا جی کا اور کوئی بھائی یا بہن نہ تھی آپ کا ایک بیٹا تھا جس کا نام بمطابق شجرہ نسب عبدالکریم تھا اور عبدالکریم کا ایک بیٹا جس کا نام عبد الحفیظ تھا عبدا لحفیظ کا مزار پشاور میں با لا حصار کے مقام پر ہے جہاں پر ویسا ہی فیض مل رہا ہے۔
کچھ زائرین پشاور میں بھی پوتابابا غلام بادشاہ کے مزار پر حاضری کے لیے جاتے ہیں بڑے میلے کے علاوہ مذکورہ دربار پر ہر جمعرات کو ایک میلے کا سماں ہوتا ہے جس پر بہت دو ر دراز سے عقیدت مند آتے تشریف لاتے ہیں
اس دربار کے حوالے سے ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر باولے کتے کے کاٹے ہوئے لو گوں کا علا ج ہو تا ہے دربار پر حاضری کے وقت ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور جی بھر کر خدا کی ذات کا ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے اور بے ساختہ اللہ ہو کا ذکر شروع ہو جا تا ہے کتنے خوش قسمت اور نصیب والے ہیں وہ لوگ جن کی وساطت سے خدا یا د آجاتا ہے اور ان سے بڑھ کر خوش نصیب وہ ذاکرین ہیں جو ہمہ وقت اللہ جل شانہ اور حبیب خدا کے ذکر کے چرچے کرنے میں محو مست اور مگن ہو جا تے ہیں
ایسی ہی ایک ہستی با باغلام بادشاہ کلر سیداں روڈ شاہ باغ سے نوتھیہ کے مقام پر موجو د ہے جس نے اپنے پیر و مرشد کے حکم پر خد ا اور اس کے حبیب کے ذکر کے چرچے عام کرنے کے لیے دربار کی بنیاد رکھی اور آج ہزاروں افراد بیک وقت ذکر میں مگن ہو تے ہیں آپ کی زندگی پوری طرح سے اسوۃ رسول کے مطابق ڈھلی ہوئی تھی آپ نے اپنے مریدین اور عوالنا س کو طریقہ رسول کے مطابق زندگیاں بسر کرنے کی ہدایت و تلقین فرمائی آپ کے ہر قدم سے کرامات کا ظہور ہو تا تھا
اولیا ء اللہ کتنے خوش نصیب لوگ ہیں جو دنیا کے مکرو فریب سے بے نیاز ہوکر سکون کی زندگی گزار رہے ہیں
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر مسلمانوں کے پاس کعبہ مدینہ اور اولیاء کرام کے مزارات نہ ہوتے تو وہ اپنے پریشانیوں کے حل کے لیے کس کے آگے ہاتھ پھیلاتے مسلمان اولیاء کرام کے مزارات میں جاکر اپنی دلی مرادیں دل کو سکون اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں
حضرت بابا غلام بادشاہ کے دربار پر 25 جون کو رات کے پچھلے پہر جب چادر پوشی کی رسم ادا کی جاتی ہے تو پورا گاؤں اللہ کے ذکر کی صداؤں سے گونج اٹھتا ہے اور خواتین بھی اس پاک رسم کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکتیں ہر طرف سے کلمہ شریف کے ذکر کی مستی بھری صدائیں کانوں میں رس گھولتی محسوس ہوتی ہیں عرس کے موقع پر پورے گاؤں کی ہر نکر پر کوئی نہ کوئی شخص زائرین کا پانی پلاتا ہو ا نظر آئے گا۔گدی نشینوں کے علاوہ بھی نو تھیہ گاؤں میں چندایسے درد دل رکھنے والے موجود ہیں
جن کا نام لیے بغیر نہیں رہا جا سکتا ان میں سے سر فہرست ما سٹر محمد اقبال ہیں ان کے گھر کے باہر پانی بلکہ شربت کے لا تعداد ڈرم موجود ہوتے ہیں جبکہ پانی پلانے کیلئے کم و بیش 20 نوجوان بیک وقت نیکی کا یہ کام سر انجام دیتے دکھائی دیتے ہیں اوران گھر کے اندر چار پانچ سو افراد کے کھانے کا بھی بندو بست موجو د ہو تا ہے اور ہر آنے والی ڈالی ان کے گھروں کے سامنے سے بغیر ٹھنڈا شربت پیے نہیں گزر سکتی گاؤں کے تمام گھروں میں عرس سے ایک مہینہ قبل صفایاں شرو ع ہو جاتی ہیں
عرس کی تقریبات سے پو را علا قہ خوش اور مذیں ہوتا ہے مذکورہ دربار محکمہ اوقاف کے زیر کنٹرول ہے مگر محکمہ اوقاف کی طرف سے درابار پر کوئی سہولت مو جو نہ ہے محکمہ کا کام صر ف اتنا رہ گیا ہے کہ ہر مہینے کے آخر میں ایک ٹیم تشریف لاتی ہے اور لاکھوں کا نذرانہ گلے میں سے نکال کر لے جاتی ہے اس کے بعد ان کا کام ختم ہو جا تا ہے محکمہ اوقاف کو اگر زیادہ نہیں تو کم از کم عرس کے مو قع پر کچھ خصوصی انتظامات ضرور کرنے چاہیں جن میں پینے کے لیے ٹھنڈا پانی اور زیارت کے آس پاس لنگر کا بندوبست ہو نا چاہیے لیکن ایسا کبھی بھی ہو تا دکھائی نہیں دے رہا ہے گدی نشینوں سائیں شہزاد گل‘ سائیں پپو، سائیں محمد زعفران، سائیں تصور،سائیں جبار،سائیں ظفر محمود کی طرف سے زائرین کیلئے لنگر کا بہترین انتظام مو جو د ہو تا ہے
اور وہ اپنے اپنے گھروں میں زائرین کی خدمت کرتے ہیں 25 جون کو چار بجے دربار پر ختم شریف کی محفل ہوتی ہے جس میں باولے کتوں کے کاٹے ہوئے افراد کو پال سے نکال جاتا ہے یہاں پر یہ بات واضع کرتا چلوں کہ پورے پاکستان میں سے نوتھیہ شریف وہ واحد گاؤں ہے جس کے باسی باولے جانوروں کا گوشت کھا سکتے ہیں اور بڑے دھڑلے سے کھاتے ہیں راقم کا شمار بھی ان ہی لوگوں میں ہوتا ہے
دربار عالیہ پر سال میں دو عرس منعقد ہوتے ہیں ایک بار ربیع اول کے مو قع پر اور دوسرا 25,26 جون کو ہو تا ہے لیکن اس عرس مبارک 24,25جون کو منعقد ہو رہا ہے بابا غلام کی ہستی ایک اٹل حقیقت ہے اس حقیقت میں کوئی بھی رد و بدل کرنا نا ممکن ہے ایک گدی نشین نے ذاتی مفادات کی خاطر محکمہ اوقاف کے افسران کے ساتھ ملی بھگت سے بابا غلام کے نام میں تبدیلی کی ناکام کوشش کی تھی لیکن گاؤں کے ایک مرد مجاہد نے ان کو تگنی کا ناچ نچا دیا ہے جس وجہ سے غلط نام کی تختیاں اتروا دی گئی ہیں اور اصل نام والی تختیاں دوبارہ نصب کر دی گئی ہیں اگر دوبارہ اس طرح کی کوشش کی گئی تو پورا گاؤں کھڑا ہو جائے گا
امید کی جاتی ہے کہ گدی نشین صرف اپنے مقصد تک محدود رہیں گئے اور زائرین کی خدمت اور دربار کی بہتری کیلیئے اپنا کردار ادا کریں گئے دربار شریف پر عرس مبارک کا آج بروز اتوار آخری دن ہے یہ پوری تحریر نوتھیہ گاؤں اور گرد و نواح کے ایسے بزرگ جن کے عمریں سو سال کے لگ بھگ کو پہنچ چکی ہیں ان سے مکمل مشاورت کے بعد لکھی گئی ہے مزید تجاویز مشورہ جات اور قیمتی آراء کی گنجائش موجود ہے .