325

عظمتوں کا نشان بابا غلام باد شاہ

دربار عالیہ حضرت بابا غلام باد شاہ کلر سیداں روڈ پر شاہ باغ سے نو تھیہ روڈ پر واقع ہے ۔عرس مبارک ہر سال 11,12 کو منعقد ہو تا ہے عرس کی بابرکت تقریبات میں علاقہ بھر سے ہزاروں زائرین شامل ہوتے ہیں ۔تحصیل کلر سیداں میں اور بھی بہت سی

خانقاہیں مو جود ہیں اور ہر خانقا ہ اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے لیکن دربار بابا غلام بادشاہ کی اہمیت کچھ زیادہ ہی ہے ۔نوتھیہ اور آس پاس کے موضع جات کے رہنے والے بزرگوں کے مطابق آج سے تقریبا تین سو سال پہلے بابا غلام صاحب کی ولادت پنڈوڑ ی لو ہارں کے ایک گھرانے میں ہوئی آپ کے والد کا نام فقیر محمد تھا آپ کے ولدین زندگی میں مختلف جگہوں پر رہائش پذیر رہے بابا کو اور کوئی بھائی یا بہن نہ تھی آپ کا ایک بیٹا تھا جس کا نام بمطابق شجرہ نسب عبدالکریم تھا اور عبدالکریم کا ایک بیٹا جس کا نام عبد الحفیظ تھا عبدا لحفیظ کا مزار پشاور میں با لا حصار کے مقام پر ہے جہاں پر ویسا ہی فیض مل رہا ہے ۔کچھ زائرین پشاور میں بھی صاحبزادہ بابا غلام بادشاہ کے مزار پر حاضری کے لیے جاتے ہیں بڑے میلے کے علاوہ مذکورہ دربار پر ہر جمعرات کو ایک میلے کا سماں ہوتا ہے جس پر بہت دو ر دراز سے عقیدت مند آتے تشریف لاتے ہیں اس دربار کے حوالے سے ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر باولے کتے کے کاٹے ہوئے لو گوں کا علا ج ہو تا ہے دربار پر حاضری کے وقت ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور جی بھر کر خدا کی ذات کا ذکر کرنے کو جی چاہتا ہے اور بے ساختہ اللہ ہو کا ذکر شروع ہو جا تا ہے کتنے خوش قسمت اور نصیب والے ہیں وہ لوگ جن کی وساطت سے خدا یا د آجاتا ہے اور ان سے بڑھ کر خوش نصیب وہ ذاکرین ہیں جو ہمہ وقت اللہ جل شانہ اور حبیب خدا کے ذکر کے چرچے کرنے میں محو مست اور مگن ہو جا تے ہیں ایشی ہی ایک ہستی با باغلام بادشاہ کلر سیداں روڈ شاہ باغ سے نوتھیہ کے مقام پر موجو د ہے جس نے اپنے پیر و مرشد کے حکم پر خد ا اور اس کے حبیب کے ذکر دے چرچے عام کرنے کے لیے دربار کی بنیاد رکھی اور آج ہزاروں افراد بیک وقت ذکر میں مگن ہو تے ہیں آپ کی زندگی پوری طرح سے اسوۃ رسول کے مطابق ڈھلی ہوئی تھی آپ نے اپنے مریدین اور عوالنا س کو طریقہ رسول کے مطابق زندگیاں بسر کرنے کی ہدایت و تلقین فرمائی آپ کے ہر قدم سے کرامات کا ظہور ہو تا تھا 25 جون کو رات کے پچھلے پہر جب چادر پوشی کی رسم ادا کی جاتی ہے تو پورا گاؤں اللہ کے ذکر کی صداؤں سے گونج اٹھتا ہے اور خواتین بھی اس پاک رسم کو دیکھے بغیر نہیں رہ سکتیں ہر طرف سے کلمہ شریف کے ذکر کی مستی بھری صدائیں کانوں میں رس گھولتی محسوس ہوتی ہیں عرس کے موقع پر پورے گاؤں کی ہر نکر پر کوئی نہ کوئی شخص زائرین کا پانی پلاتا ہو ا نظر آئے گا ۔گدی نشینوں کے علاوہ بھی نو تھیہ گاؤں میں دو ایسے درد دل رکھنے والے موجود ہیں جن کا نام لیے بغیر نہیں رہا جا سکتا وہ سائیں محبوب اور ماسٹر اقبال ہیں ان دونوں افراد کے گھر کے باہر پانی بلکہ شربت کے لا تعداد ڈرم موجود ہوتے ہیں اور گھر کے اند ر چار پا نچ سو افراد کے کھانے کا بھی بندو بست موجو د ہو تا ہے اور ہر آنے والی ڈالی ان کے گھروں کے سامنے سے بغیر ٹھنڈا شربت پیے نہیں گزر سکتی گاؤں کے تمام گھروں میں عرس سے ایک مہینہ قبل سفایاں شرو ع ہو جاتی ہیں عرس کی تقریبات سے پو را علا قہ خوش اور مذیں ہو تا ہے مذکورہ دربار محکمہ اوقاف کے زیر کنٹرول ہے مگر محکمہ اوقاف کی طرف سے درابار پر کوئی سہولت مو جو نہ ہے محکمہ کا کام صر ف اتنا رہ گیا ہے کہ ہر مہینے کے آخر میں ایک ٹیم تشریف لاتی ہے اور لاکھوں کا نذرانہ گلے میں سے نکال کر لے جاتی ہے اس کے بعد ان کا کام ختم ہو جا تا ہے محکمہ اوقاف کو اگر زیادہ نہیں تو کم از کم عرس کے مو قع پر کچھ خصوصی انتظامات ضرور کرنے چاہیں جن میں پینے کے لیے ٹھنڈا پانی اور زیارت کے آس پاس لنگر کا بندوبست ہو نا چاہیے لیکن ایسا کبھی بھی ہو تا دکھائی نہیں دے رہا ہے گدی نشینوں کی طرف سے لنگر کا بہترین انتظام مو جو د ہو تا ہے اور وہ اپنے اپنے گھروں میں زائرین کی خدمت کرتے ہیں 26 جون کو چار بجے دربار پر ختم شریف کی محفل ہوتی ہے جس میں باولے کتوں کے کاٹے ہوئے افراد کو پال سے نکال جاتا ہے دربار عالیہ پر سال میں دو عرس منعقد ہوتے ہیں ایک بار ربیع اول کے مو قع پر اور دوسرا 25,26 جون کو ہو تا ہے لیکن اس دفعہ رمضان المبارک کی وجہ سے یہ عرس تین اور چار جون کو منعقد ہو رہا ہے ۔{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں