494

روات شاہی قلعہ

تحریر:راجہ طاہر محمود روات

راولپنڈی سے مشرق کی جانب سترہ کلومیٹر کے فاصلہ پر روات شاہی قلعہ واقع ہے جو سولہویں صدی کے اوائل میں تعمیر کیا گیا تھا. یہ گکھڑوں کے سربراہ سلطان سارنگ خان اور شیر شاہ سوری کے درمیان ایک جنگ کی یاد دلاتا ہے جو1546 ء میں اس مقام پر لڑی گئی۔
قلعہ کا منظر

قلعہ تقریبا مربع شکل میں ہے اور اس کے دو بڑے دروازے ہیں اور ایک مسجد کے تین بڑے کمرے گنبد کی شکل میں نظر آتے ہیں اور یہ تقریبا بہتر حالت میں ہے۔

ایک گنبد کے ساتھ ایک چوکور عمارت ہے دیوار وں کے ساتھ ساتھ چھوٹے کمرے ہیں.اس کی فصیل کے ساتھ ساتھ بہت سے چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے ہیں جو کہ دفاعی لحاظ سے اہمیت کے حامل ہیں قلعہ کے مرکز میں کئی قبریں ہیں. ان میں سے ایک سلطان سارنگ خان کی ہے۔ ان کے سولہ بیٹوں کی قبریں بھی ہیں جو 1540 میں یہاں جنگ کرتے ہوئے مارے گئے تھے ،۔ہمایوں کے دور کے دوران ، سلطان سارنگ خان نے زیادہ شہرت حاصل کی وہ اتنا طاقتور ہو گیا تھا کہ اس نے شیر شاہ سوری کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتھا ان کے اس انکار سے شیر شاہ سوری نے اس پر چڑھائی کر دی جس کے نتیجے میں وہ اور اس کے سولہ بیٹے مارے گئے تھے۔

موجودہ حالت

قیام پاکستان کے بعد قلعہ کو محکمہ اوقاف کی نگرانی میں دے دیا گیا اور اس کا نام شاہی قلعہ رکھ دیا گیا جس میں ایک مسجد بھی واقع ہے جو آج بھی آباد ہے اور قدیم دور کی یاد دلاتی ہے قلعے کے ارد گرد مضبوط فصیل ہے جو اسے بیرونی دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کا زریعہ تھی مگر اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اس کے علاوہ اس کی دیواروں کو اہل روات نے بھی نقصان پہنچایا ہے انہوں نے گھروں کی تعمیر کے لیے اس کی دیواروں کو گرانا شروع کر دیا تھا اب حکومت نے اس کے ارد گرد دیواروں کے ساتھ تعمیرات پر پابندی لگا دی ہے اور قلعے کے دونوں اطراف میں خوبصورت لان بنا دیے گئے ہیں ۔ تاہم ان کی تعمیرات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔

بہترین سیاحتی مقام

یہاں ملکی اور غیر ملکی سیاح آنا جانا رہتا ہے اور اگر حکومت زرا سی توجہ دے تو اس کو سیاحت کے لیے حوصلہ افزا مقام بنایا جا سکتا ہے اونچائی پر واقع ہونے کی وجہ سے دفاعی اعتبار سے بھی یہ قلعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہاں سے اسلام آباد اور راولپنڈی اور ارد گردکے بڑے علاقے پر موثر کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے تاہم اس تاریخی مقام پر حکومت کو توجہ دینی کی ضرورت ہے تاکہ آنیوالی نسلوں میں یہ وارثہ منتقل ہوسکے ۔

قلعہ کے صدر دروازہ کے باہر لگے آہنی بورڈ پر تحریر

روات عربی زبان کے لفظ ربات کی بگڑی ہوئی شکل ہے ربات کے لغوی معنی سرائے کے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ قلعہ درحقیقت ایک قدیم کاروان سرائے تھا جو کہ جرنیلی روڈ کے ساتھ مسافروں کی سہولت یا سرکاری اہلکاروں کے ٹھہرنے کیلئے بنائی گئی تھی اس کا فن تعمیر اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ قلعہ نماسرائے پندرہویں صدی کے اوائل میں سلاطین دہلی کے زمانے میں تعمیر ہوتی تھی لیکن اس قلعے کو سلطان محمود غزنوی کے بیٹے مسعود کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے جس کا زمانہ 1036ء ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے لشکر کے باغی سپاہیوں نے اسے اس قلعے میں گرفتار کیا اور بعد میں ٹیکسلا کے نزدیک گڑی کے قلعے میں لے جا کر قتل کردیا یہ قلعہ بعد میں گکھڑ قبیلے کے سردار سارنگ خان کے قبضے میں آیا جو کہ اپنے سولہ بیٹوں کے ساتھ شیر شاہ سوری کے ہاتھوں قتل ہوا اور اسی قلعے میں دفن کیا گیا۔
موجودہ قلعہ فصیل اور دو دروازوں پر مشتمل ہے صدر دروازے کا رخ مشرق کی جانب ہے جبکہ عقبی دروازہ شمال کی طرف کھلتا ہے۔ فصیل کے اندر چاروں اطراف میں ہجرے بنے ہوئے ہیں۔ فصیل کے اندر دیگر تاریخی عمارتوں میں یاک ہشت پہلو مقبرہ ایک مسجد اور چند قبریں ہیں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں