764

تھوہا خالصہ کے تاریخی واقعات

گزشتہ ہفتے اپنے ساتھی محمد قدیر آف بسنتہ کے ہمراہ تحصیل کہوٹہ میں پہاڑیوں کے دامن اور قدرتی حسین مناظر میں گھرے تاریخی گاؤں تھوہا خالصہ کا دورہ کیاگاؤں کے رہائشی محمد کامران اور راجہ عظمت فاروق صاحب کی معاونت سے تھوہا خالصہ میں سکھ برادری کے تاریخی مقامات دیکھنے کا موقعہ ملا جن میں حویلی گلاب سنگھ جسکے نشانات اب مٹ چکے ہیں

دکھ بجنی گوردوارہ کی جگہ اور وہ کنواں بھی دیکھا جہاں سکھ عورتوں نے چھلانگیں لگا کر خودکشی کرلی تھی 1947میں جب تقسیم ہند کی تحریک زوروں پر تھی مسلم لیگ کی قیادت کشمیر کو پاکستان کیساتھ ضم کرنے کے مختلف آپشنز پر غوروفکر کرنے میں مصروف عمل تھی اس دوران جہاد کی غرض سے وزیرستانی قبائلیوں پر مشتمل ایک لشکر کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا کشمیر میں قبائلی مداخلت کا باقاعدہ آغاز 22 اکتوبر 1947 کو ہوا اس دوران قبائلی لشکر پشاور اور راولپنڈی کینٹ میں آتے جاتے رہتے تھے

انہی میں سے ایک جتھہ فروری 1947 کے آخری دنوں میں راولپنڈی پہنچا 3مارچ 1947 کو سکھوں کے رہنما ماسٹر تارا سنگھ جس نے ڈیرہ خالصہ کے رہائشی اور معروف سکھ مذہبی رہنما عطر سنگھ کے ہاتھوں سکھ مذہب اختیار کیا تھا اور انکی تبدیلی مذہب کی رسومات بھی تھوہا خالصہ کے دکھ بجنی گورودوارہ میں ہی سرانجام پائی تھیں اسی تارا سنگھ نے پاکستان کے نام سے الگ ملک کا مخالفت کی تھی اس نے لاہور میں ایک تقریر کی اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے جس سے ہرطرف نفرت کی آگ بھڑک اٹھی تھی کشمیر میں سکھوں کی حکومت تھی اور راولپنڈی ضلع میں سکھ بہت بڑی تعداد میں آباد تھے قبائلیوں کو لاہور کے فسادات کا علم ہوا تو انہوں نے سکھوں کے خلاف اعلان جہاد کردیا اورچند دن بعد لشکر لے کر راولپنڈی کے علاقے چونگی نمبر بائیس پر چڑھائی کر دی

چونکہ یہ راولپنڈی اور چکلالہ کا تقسیم شدہ فوجی علاقہ تھا اور یہاں سکھوں کے پاس اسلحہ کی بھی فراوانی تھی اس لیے راولپنڈی میں انہیں سکھوں کے مقابلے میں پسپائی اختیار کرنا پڑی لہذا انہوں نے راولپنڈی کو زیر کرنے کا منصوبہ ترک کرکے روات کی طرف پیش قدمی شروع کردی اسلام آباد اور راولپنڈی سے آتے ہوئے ٹی چوک سے تھوڑا آگے روات بازار جرنیلی سڑک پر واقع ہے

اور اس سے بائیں کلرسیداں کی طرف ایک روڈ نکلتی ہے چوکپنڈوڑی جاتے ہوئے اس روڈ کے دائیں طرف گاؤں ساگری آباد ہے جہاں کبھی مالدار سکھوں کے خاندان آباد تھے وہ زیادہ ترسنار کا کام کرتے تھے جبکہ اسی روڈ پر تھوڑا آگے شاہ باغ بازارسے 2کلومیٹر کے فاصلے پربائیں طرف نتھیہ جاتے ہوئے راستے میں مشرق کیجانب اونچی ٹیکری پر ڈیرہ خالصہ کے نام سے ایک گاؤں آباد ہے قبائلی لشکر روات سے کلرسیداں روڈ کے راستے ڈیرہ خالصہ پہنچا تاہم اس لشکر نے ساگری کو کیوں نظرانداز کیا یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے

عین ممکن ہے انہوں نے ڈیرہ خالصہ تک رسائی کیلیے کلرسیداں روڈ کی بجائے ڈھوک میجر چھپری اکو ترکھی پیر گراٹہ کا راستہ اختیارہ کیا ہوچونکہ ڈھیرہ خالصہ میں مسلمانوں اور سکھوں کے گھر ایک دوسرے سے متصل تھے اور لڑائی کی صورت میں سکھوں کیساتھ مسلمانوں کے جانی نقصان کا بھی اندیشہ تھا اس لیے قبائلی لشکر ڈیرہ خالصہ سے براستہ چنام‘گنگوٹھی برہمناں سے گزرتے
ہوئے تھوہا خالصہ پہنچا

ایک سکھ جنکا نام پرپیت پال سنگھ ہے جو اس واقعے کے وقت تھوہا خالصہ میں مقیم تھے اور انکی عمر 12سال کے لگ بھگ
تھی انہوں نے یوٹیوبر کیشو ملتانی کے روبرو سانحہ تھوہا خالصہ کی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ 9مارچ کی شام مغرب کے وقت قبائلی لشکرتھوہا خالصہ کے مغرب کیجانب سے نمودار ہوا اور سب سے پہلے لاری اڈہ کے قریب گاؤں کے داخلی راستے پرقائم گھروں کو لوٹنا اور آگ لگانا شروع کردی سکھوں نے بھی آگے سے مزاحمت شروع کردی بعدازاں کچھ دیر بعد وہ واپس لوٹ گئے 10مارچ کو وہ دوبارہ حملہ آور ہوئے اور معمولی جھڑپوں کے بعد پھر واپس لوٹ گئے

مگر11مارچ کی شام قبائلی جنکی تعداد ایک ہزار کے قریب تھی دوبارہ تھوہا خالصہ میں داخل ہوئے انہوں نے جان بخشی کے لیے سکھوں سے سونا نقدی رقم اور اسلحہ انکے حوالے کرنے کی شرط پر صلح کرنے پر آمادگی ظاہر کی سکھوں نے اپنی جان کی امان کیلیے اسلحہ سونا اور نقد رقم انکے حوالے کردی اور اس دن پھر وہ واپس چلے گئے مگر 12مارچ کودوبارہ واپس آگئے اور سکھوں کو اسلام قبول کرنے اور سکھ لڑکیوں کا نکاح انکے ساتھ پڑھوانے کا مطالبہ کردیا سکھوں نے یہ شرطیں ماننے سے انکار کردیا

اور سکھ خاندان سردار گلاب سنگھ کی حویلی میں محصور ہوگئے اسی دن ایک دلخراش واقعہ پیش آیا تھا جسکی تفصیل کچھ یوں ہے مان کور سردار گلاب سنگھ کی رشتہ دار ایک بیوہ خاتون تھی وہ حویلی میں بچوں کی دیکھ بھال کرتی تھی جب مان کور نے دیکھا کہ سکھ بڑی تعداد میں مارے جاچکے ہیں تو وہ باقی خواتین اور بچوں کو لے کر گاؤں سے باہر ندی کے اس پار ایک کنواں کے پاس پہنچی پہلے مان کور نے کنویں میں چھلانگ لگائی تو انکے پیچھے باقی خواتین بھی اپنی بچوں کے ہمراہ کود گئیں کنواں لاشوں سے بھر گیا

اور بعد میں چھلانگ لگانے والی کئی خواتین اور بچے کنویں میں ڈوب نہ سکے سردار پیت پال سنگھ بھی کنواں میں چھلانگ لگانے والے بچوں میں شامل تھے تاہم وہ ڈوب نہ سکے اور بعد میں جویندرا نامی سکھ جنکی تھوہا خالصہ میں آٹے کی چکی تھی کنواں میں اپنی پگڑی لٹکا کر انکو بچا لیا تھا کنویں سے خواتین اور بچوں کی 93 لاشیں برامد ہوئیں تھیں دوسرے دن مقامی مسلمانوں نے آ کر جو چند ایک سکھ بچ گئے تھے انہیں خوراک پہنچائی اس واقعے کی خبر سن کر لارڈ اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے تھوہا خالصہ کا دورہ کیا

اور بچ جانے والوں سے سانحے کی تفصیلات دریافت کیں سکھوں کیلئے روات اور گوجرخان میں ریلیف کیمپس قائم کئے گئے مگر تھوہا خالصہ اجڑچکا تھا تاہم اب تھوہا خالصہ دوبارہ آباد ہے مگر اب اس گاؤں میں کوئی بھی سکھ موجود نہیں قیام پاکستان کے بعد محکمہ اوقاف نے دکھ بھجنی گوردوارہ تو اپنی تحویل میں لے لیا تھا مگر اب دکھ بجنی گردوارہ اور سردار گلاب سنگھ کی حویلی کا نام ونشان باقی نہیں رہا اب تو انکی بنیادیں تک منہدم ہو چکی ہیں تاہم وہ قاتل کنواں اب بھی موجود ہے جس نے 93 معصوم عورتوں اور بچوں کی جان لے لی تھی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں