206

کرونا سے پوری دنیا کے معاشی حالات ہونے کا خدشہ بڑھ گیا

عبدالجبارچوہدری/گزشتہ ہفتہ آئی ایم ایف نے انتباہ کیا کہ کرونا جیسی ہلاکت خیز آفت پر اگر قابو نہ پایا جاسکا تو دنیا کے کئی ممالک کی معاشی حالت خراب ہو جائے گی اکیسویں صدی کا آغاز ہی انسانی زندگی کی تباہ کاریوں سے ہوا بین الاقوامی قوانین اور ملکی سرحدوں کی پامالی پر رکھے گئے اقدامات کے نتیجہ میں بیس سالوں میں لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے ،ہزاروں بے گھر اور معذور ہوئے کروڑوں ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار بنے مسلم ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ براہ راست ان کی سرزمین پر انسانی جانوں کی تباہی کا کھیل کھیلا گیا اب یہ مشق آخری ہچکیاں لے رہی ہے دوسرے کے ہاں آگ لگانا نہایت آسان ہے جب اس سے اپنے پاوں جلنا شروع ہو جائیں تو تب جا کر احساس ہوتا ہے ان 20سالوں میں مسلمانوں کو زندہ جلا یا گیا ،بے گھر مسلمان ہوئے ،بھوکے‘ ننگے اور سمندروں میں غرق ہونے والے مسلمان ہی تھے خانہ جنگی ‘دہشتگردی اورخودکش دھماکوں کی بھینٹ مسلمان ہی چڑھے اس کے باوجود انسانیت کے دشمنوں ‘انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کی تسکین نہ ہو سکی اقوام متحدہ جیسے ادارے کو بے وقعت کرنے کی سزا بھی مسلمانوں کو ملی ‘ 21ویں صدی کے پہلے المیے نے 9/11کو جنم لیا جب نہتے،جنگ زدہ اور افلاس کا شکار ملک افغانستان پر امریکہ نے جدید اسلحے اور پوری یورپ کے جنگی اتحاد نیٹو کی بھرپور معاونت سے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی 20سال برسر پیکار رہنے کے بعد اب ایک جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے ۔دوسرا انسانی المیہ میانمار (برما)میں ہوا جہاں کی ملکی فوج نہتے روہنگیا مسلمانوں پر چڑھ دوڑی ‘ان کو زندہ جلایا گیا ننگ دھڑنگ لوگ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ۔تیسرے انسانی المیے نے ایک مسلمان ملک شام میں جنم لیا جہاں بظاہر کئی عشروں سے قائم ایک حکومت کا خاتمہ ہدف تھا مگر توقعات سے بڑھ کر مزاحمت نے بین الاقوامی جنگ کی شکل اختیار کر لی طاقت ور ملکوں نے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور لاکھوں مسلمان بے گھر ہوئے سمندر کی بے رحم لہروں کی نذر ہو گئے اور ملک بھی تباہ ہو گیا یہ جنگ ابھی تک جاری ہے اور اس کے ختم ہونے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی ‘ عراق ‘ یمن میں دو دھاری تلواروں سے قتل عام ہوا ابھی تک مستحکم حکومت کی علمداری ایک خواب ہی بنا ہوا ہے لبنان جیسا ملک بھی اپنے پیروں پر کھڑا ہونے سے قاصر ہے ۔گزشتہ 20ویں صدی میں انسانی المیوں کا
مرکز و محور افریقہ تھا اور 21ویں صدی میں تختہ مشق مسلمان ممالک‘ ایسے مسلم ممالک جہاں کی آبادی زیادہ تر نوجوانوں پر مشتمل ہے اگر یہ نوجوان ملکی ترقی کے کاموں میں حصہ لیتے تو یہ ممالک یقینا ترقی یافتہ ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ایک عالمی منصوبہ بندی کے تحت ان ممالک میں خانہ جنگی کو شروع کرایا گیا اور حکومتوں کی ہٹ دھرمی نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔پڑوسی ملک میں پچاس کروڑ مسلمانوں پر زندگی تنگ کی جارہی ہے کشمیر کے مسلمانوں کو کئی ماہ سے گھروں میں بند رکھا ہوا ہے یہ بھی ایک اور انسانی المیے کی طرف پیش قدمی ہے اگر اسے بھی نظریں چرائی گئیں اور فسطائی نظریہ کی مالک بی جے پی کی حکومت کو نہ روکا گیا تو انسانوں کی لاشیں سنبھالنے والا شاید بھی نہ ملے ان انسانی المیوں پر ترقی یافتہ ممالک اس لیے خاموش رہے کہ ان کے شہر ان آفتوں میں محفوظ تھے بین الاقوامی اداروں نے چپ کا روزہ اس لیے رکھا کہ ان کے مالی مفادات کو نقصان نہیں پہنچ رہا تھا صرف انسان غر ق ہو رہے تھے دولت محفوظ تھی بلکہ ان ملکو ں کے قومی خزانے کی رقوم کسی نہ کسی طرح ترقی یافتہ ممالک کو مل رہی تھیں اس لیے کسی احتجاج ‘ الٹی میٹم کی ضرورت پیش نہ آئی اب جب کرونا وائرس کی صورت ایک بیماری نے ترقی یافتہ ملکوں کے شہریوں کی موت کے پروانے جاری کرنا شروع کیے اور اس کا علاج اور پھیلاو روکنا بھی ممکن نہیں تو معاشی حالات کی تباہی کا رونا شروع ہو گیا سرحدوں کی بندش‘ ملکوں کے ہوائی سفر پر پابندیوں اور اشیاءکے نقل و حمل میں تاخیر نے ترقی یافتہ ممالک کو خوف میں مبتلاکر دیا کہ ہمارے شہری اس کا شکار ہو کر مرجائیں گے اب شاید بین الاقوامی ایمرجنسی کا امکان بڑھ جائے اور اس وباءسے مقابلہ کے لیے ترقی یافتہ ممالک بین الاقوامی ادارے کا نفرنسیں کریں اور اقدامات کے نتیجہ میں غریب ممالک کا بھی بھلا ہو جائے اور جاری جنگیں ختم ہو جائیں اور انسانی المیوں کا باب بند ہو جائے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں