(کامیابی سیریز:قسط نمبر1)
وقت بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔مصنوعی ذہانت اور سوشل میڈیا کے اس دور میں کسی ایک چیز پر توجہ مرکوز کرنا اور پراجیکٹس کو پایا تکمیل تک پہنچانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔اس مشکل کو کیسے آسان بنانا ہے اور اپنی کارکردگی کو کیسے بڑھانا ہے۔آیئے اسے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اگر آپ نے ان تکنیکس کو سیکھ لیا تو اپنی صلاحیت کو دیکھ کر آپ خود حیران رہ جائیں گے۔
ان اصولوں نے نہ صرف میرے کام کرنے کی صلاحیت کو بڑھایا ہے بلکہ اب تک ہزاروں لوگ اس سے فائدہ حاصل کر چکے ہیں۔اس ضمن میں پہلا نمبر اصول ترجیح یا پریٹو کا اصول ہے جسے عرف عام میں اسی بٹا بیس کا اصول بھی کہتے ہیں جسے استعمال کر کے آپ حیران کن نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔سکول اور کالج کے زمانے میں امتحان کی تیاری کے لیئے میں بالکل اسی طریقے سے تیاری کرتا تھا جیسے باقی سب عام طلباء کرتے ہیں۔
میں روزانہ تقریباً پانچ سے چھ گھنٹے کولہو کے بیل کی طرح محنت کرتا ۔اپنے تئیں میں سمارٹ ورک کر رہا ہوتا تھا لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ ایسا کچھ نہیں تھا۔جو طریقہ میں نے اپنا رکھا تھا اس میں کچھ خاص نہیں تھا۔اسی وجہ سے نتائج اتنے اچھے نہیں آتے تھے جتنا میں توقع کر رہا ہوتا تھا۔جیسے جیسے میں تعلیم میں آگے بڑھتا گیا ،ورک لوڈ بڑھنے کے ساتھ ساتھ میرے مطالعہ کرنے کی تکنیکس بھی بے اثر ہوتی گئیں۔

مضمون نگار ہیلتھ سروسز یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور مخلتف معاشرتی مسائل اور نوجوانوں کے لیے لکھتے ہیں
وقت کے ساتھ ساتھ ٹاسکس کو بروقت مکمل کرنا ناممکن ہوتا گیا۔قصہ مختصر دن کے اختتام پر بہت سے ٹاسکس نامکمل رہ جاتے تھے۔لیکن پھر کتاب پڑھنے کی عادت نے میرا یہ مسئلہ حل کیا اور میرے ہاتھ رچرڈ کوچ کی کتاب “اسی بٹا بیس کا اصول” ہاتھ لگی۔یہ کتاب میرے دیرینہ مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔اس کتاب کا لب لباب یا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ ہمارے اسی فیصد مسائل صرف بیس فیصد کی کوشش سے حل ہوتے ہیں۔اور ہمارا باقی کا اسی فیصد ان چیزوں پر صرف ہوتا ہے جن کی آؤٹ پُٹ محض بیس فیصد ہوتی ہے جس سے پریشان کن اور دباؤ کی صورتحال جنم لیتی ہے۔
اس کو ہم ایک اور مثال سے بھی سمجھ سکتے ہیں۔مثال کے طور پر آپ اپنی صحت کو لے لیں۔آپ کا سونے اور جاگنے کا پیٹرن،آپ کیا کھاتے اور پیتے ہیں؟آپ ہفتے میں کتنے دن ورزش کرتے ہیں۔خوراک میں کون کون سے سپلیمنٹ لیتے ہیں اور آپ تسکین روح کے لیئے کتنا وقت صرف کرتے ہیں۔یہ ایک بہت بڑی فہرست ہے (اور اب تو یہ ایک باقاعدہ انڈسٹری بن چکی ہے)۔لیکن اگر آپ اصول ترجیح کو سمجھتے ہیں تو نیند کی باقاعدگی،متوازن غذا اور ہلکی پھلکی باقاعدہ ورزش سے آپ کی صحت کے اسی فیصد مسائل حل ہو جاتے ہیں۔
لیکن ان کی بجائے اگر آپ بقیہ اسی فیصد پر فوکس کریں گے تو آپ کا فوکس اس بیس فیصد سے ہٹ جائے گا۔اس کا آپ کو نقصان یہ ہو گا کہ سپلیمنٹ اور دوسری کم اہم چیزوں پر توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے آپ کا سونے اور جاگنے کا پیٹرن،متوازن غذا اور ورزش والا بیس فیصد حصہ نظر انداز ہو گا یا ان پر آپ کی توجہ کم ہونا شروع ہو جائے گی جس سے آپ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکیں گے۔آپ کم وقت میں بہترین نتائج حاصل کرنے میں ناکام ہو جائیں گے۔
پیداواری صلاحیت اصل میں محدود وسائل کے بہترین استعمال سے حاصل ہوتی ہے۔پہلا اور سب سے بڑا وسیلہ “وقت” ہے جو کہ بہت محدود ہوتا ہے۔آپ کے پاس بھی دن میں اتنے ہی گھنٹے ہیں جتنے محمد علی باکسر یا محمد علی جناح کے پاس تھے۔کامیابی یا سمارٹ تکنیک اصل میں یہ معلوم کرنا ہے کہ کون سی چیز کرنی ہے اور کس چیز کو نظر انداز کرنا ہے۔میرے خیال میں سب سے اہم چیز جس کو جاننے کی ضرورت ہے وہ اس تکنیک کی بنیاد کو سمجھنا ہے۔
مثلاً اگر آپ کو ایک دن میں دس کام کرنے ہیں تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ان میں سے آٹھ کام ایسے ہوں گے جن پر فوکس کرنا محض وقت کا ضیاع ہو گا۔جبکہ ان میں سے وہ دو کون سے ٹاسکس ہیں جن کو کرنے سے آپ کا اسی فیصد کام مکمل ہو سکتا ہے۔اور ان دو ٹاسکس پر کام کرنے سے آپ بہت زیادہ پیداواری صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں۔
میرے خیال میں اصول ترجیح وہ بنیاد ہے جس پر ہماری کارکردگی کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ایک خالی صفحہ لیں اور اس پر ایک چھوٹا سا دائرہ لگائیں۔دائرے سے کچھ فاصلے پر ایک کراس کا نشان لگائیں۔فرض کریں کہ دائرہ آپ خود ہیں اور کراس کا نشان وہ ٹاسک ہے جو آپ مکمل کرنا چاہتے ہیں۔جب ہم ترجیحات طے کیئے بغیر اندھا دھند سمت کا تعین کیئے بغیر کام کرتے ہیں تو اصل میں ہم اپنے آپ کو ان اسی فیصد ٹاسکس میں الجھا لیتے ہیں جن کو مکمل کرنا محض وقت کا ضیاع ہے۔
دن کے اختتام پر (حالاں کہ ہم بہت مصروف بھی رہے) ہم اپنے ٹاسک کے قریب جانے کی بجائے بس الجھے ہی رہ جاتے ہیں۔جب ہم اصول ترجیح کو استعمال کرتے ہیں تو اصل میں ہم وہ راستہ معلوم کر رہے ہوتے ہیں جو ہمیں ہمارے ٹاسک کے قریب لے جاتا ہے۔اور آخرکار ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ ہم اپنے ٹاسک کو مکمل کر سکیں۔اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو دیکھیں جو اپنی زندگی میں عملی طور پر اس اصول کو لاگو کرتے ہیں۔
آپ کو ایسے لوگ فوکسڈ نظر آئیں گے۔یہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول میں بالکل کلیئر ہوں گے۔وہ اسی سمت میں کام کر رہے ہوں گے جو انھیں اپنے مقصد کے قریب کر رہا ہو گا۔وہ بامقصد طریقے سے اپنے ٹاسک کو مکمل کرنے میں مصروف عمل ہوں گے۔آپ ان کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ کم وقت میں یہ لوگ بہت زیادہ پراجیکٹس کر رہے ہوتے ہیں اور آپ بس تیاری کرتےرہ جاتے ہیں۔
اس کے برعکس وہ لوگ جو اصول ترجیح کو استعمال نہیں کرتے وہ لوگ مصروف ضرور دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کا حاصل حصول کچھ خاص نہیں ہوتا۔مصروف ہونے کے باوجود وہ صحیح سمت کا تعین نہیں کر پاتے۔ اصول ترجیح کو موثر طریقے سے کیسے استعمال کرنا ہے یہ انشاءاللہ اگلی قسط میں بتاؤں گا.