45

کشمیر صِرف کشمیریوں کی “شہ رگ” ہے۔

کشمیر چار ہزار سال پہلے بھی اپنا الگ تشخص رکھتا تھا، کشمیری صدیوں سے آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ 1579ء میں اکبرِ اعظم کے حملے کے بعد کشمیر کی آزادی ختم ہُوئی تو کشمیری پھر بھی چین سے نہیں بیٹھے تھے ۔ تاریخی اعتبار سے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دینا صِرف مفاد پرستانہ سوچ ہے ۔ حکومتِ پاکستان کو چاہیے کہ گِلگِت بلتِستان کو پاکستان کا صُوبہ رکھنے کے بجائے آزاد کشمیر کے انتظامی کنٹرول میں دے دے اور حکومتِ آزاد کشمیر کو واقعی حکومت تسلیم کرے تو کشمیری خُود دُنیا بھر سے اسلحہ لے کر اپنی آزادی کی جنگ لڑ سکتے ہیں.


اِس طرح پاکستان بھارت کی اِلزام تراشیوں سے بھی بچا رہ سکتا ہے ۔ لیکن جب آزاد کشمیر کی تقسیم کے فیصلے اِسلام آباد ميں ہوں اور کشمیر کے ایک فطری اور قانونی حِصّے کو گِلگِت بلتِستان کے نام سے پانچواں صوبہ بنا دیا جائے تو پھر دِلّی والے بھی مقبوضہ کشمیر کو “اٹوٹ انگ” کہنے میں حق بجانب نظر آتے ہیں۔کشمیریوں کے تمام سیاسی مکاتبِ فکر کشمیر کے بارے میں شِملہ معاہدے کی کسی بھی شِق کو تسلیم کرنے کو تیّار نہیں کیونکہ اِس میں نہ صِرف کشمیریوں کے حقِ خُود ارادیت کا ذِکر تک نہیں بلکہ کشمیریوں کو اِس کا فریق بھی نہیں بنایا گیا۔ پاکستان کے حُکمران شُروع سے آج تک کشمیر سے مُخلص نہیں رہے۔ کشمیر کا مسئلہ تو پاکستان نے اُسی وقت دفن کر دیا تھا جب لیاقت نہرُو معاہدے میں یہ بات طے پا گئی کہ دونوں میں سے کوئی مُلک دوسرے کے مُعاملات میں مُداخلت نہیں کرے گا۔


پھر سِندھ طاس معاہدے سے بھی ہم نے ثابت کیا کہ ہمیں کشمیر کی نہیں ، کشمیر کے پانی کی ضرورت ہے ۔ ہم کشمیر سے مخلص ہوتے تو آزاد کشمیر کو باقاعدہ الگ مُلک تسلیم کر کے باقی دُنیا سے بھی اِسے تسلیم کرواتے ۔ کشمیر ، کشمیریوں کا مسئلہ ہے اور یہ پاکستان کی نہیں بلکہ کشمیریوں کی شہ رگ ہے ۔ کشمیری اس بات کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے بلوچستان تین بار فوج کشی کی اور بنگال میں پاکستانی فوج نے قتلِ عام کیا۔ پاکستان اگر گِلگِت بلتِستان کے لوگوں کو بحیثیت کشمیری حقِ رائے دہی دینے پر تیّار نہیں تو مقبوضہ ہائے کشمیر کے عوام پاکستان کی طرف کیوں متوجہ ہوں گے۔


آج تک حکومتِ پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ ، اسلامی سربراہی کانفرنس اور دوسرے ممالک کے سامنے اپنا نقطۂ نظر بہتر انداز اور پُر اثر طریقے سے پیش ہی نہیں کیا۔ مظلوم اور ضرورت مند کشمیریوں کی سماجی بحالی اور مالی امداد کا کام سیاسی، مذہبی اور عسکری جماعتوں کے بجائے ایدھی ٹرسٹ جیسی تنظیموں کے ذریعے کیا جائے۔


تو کشمیر کے نام پر ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والی مذہبی، عسکری اور سیاسی تنظیموں اور گماشتوں کا مال بنانے کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔پاکستان اور ہندوستان کی کسی حکومت نے کشمیریوں سے وفا نہ کی۔ وہ صِرف اپنے سیاسی اور عسکری اقتدار کو طول دینے کے لئے کشمیر کا نام استعمال کر رہی ہیں۔ اِن حالات میں اگر کشمیریوں کو آزادی مطلوب ہے تو وہ دو طرفہ ایجنسیوں کے آلۂ کار بننے کے بجائے خُود اِس کے لئے جِدوجہد کریں کیونکہ میز پر مذاکرات کے ذریعے آزاد اور خُود مُختار مُلک نہیں بنا کرتے بلکہ جغرافیے پر آزادی کی نئی لکیریں ہمیشہ خُون سے کھینچی جاتی ہیں ۔

اگر کشمیر کا پاکستان سے اِلحاق مقصود ہے تو پاکستان میں وہ جاذبیت پیدا کرنی ہو گی جو کشمیریوں کو اِدھر متوجہ رکھ سکے۔ پاکستان میں اسلامی معاشرے کا قیام اہلِ کشمیر کے لئے سب سے بڑی کشش ہو سکتا ہے۔حکومتِ پاکستان، شِملہ معاہدہ کے حوالے سے مسئلہ کشمیر کو کسی بین الاقوامی فورم پر لے جانے سے عاری ہے ۔


پاکستانی دفترِ خارجہ اپنے دوست مُمالک، یہاں تک کہ مسلمان مُلکوں کو بھی ہمنوا بنانے میں ناکام رہا ہے۔راجیو گاندھی آنجہانی کی اِسلام آباد آمد پر شاہراہوں سے کشمیر کے بورڈ ہٹا دئیے گئے راجیو نے پریس کانفرنس میں اِستصوابِ رائے سے اِنکار کیا تو “ہم ” نے سر جھُکا کر اِس کی تائید کی ۔ اگر پاکستان کی قیادت مضبوط ہاتھوں میں ہوتی تو کشمیر کے بورڈ اُتارنے کے بجائے راجیو گاندھی کو کشمیر ہاؤس میں ٹھہرایا جاتا۔


کشمیر کے بارے میں جِس معاہدے میں اہلِ کشمیر فریق نہ ہوں اُسے کشمیر پر لاگو کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اہلِ کشمیر بھیڑ بکریاں نہیں کہ اِسلام آباد اور دِلّی والے اِن کی خواہشات کے خِلاف اِن پر اپنے فیصلے مسلّط کرتے رہیں۔ جہاں تک اہلِ پاکستان یعنی عوام کا تعلق ہے وہ ہمیشہ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ رہے ہیں۔ وہ ہر پانچ فروری کو اہلِ کشمیر سے یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اِن کا اعلان ہوتا ہے کہ “ہم کشمیریوں کے ساتھ جئیں گے اور اُن کے لئے مریں گے”.کشمیریوں کی آزادی اور پاکستان کو بیرونی جارحیت سے بچانے کے لئے ہمارے پاس ایٹمی طاقت کی موجودگی ناگزیر تھی۔ مغرب خصوصاً امریکہ اِس پر ناراض ہوتا ہے تو ہوتا رہے، وہ کب ہمارے دفاع کا ضامن تھا جو ہم اُس کی خُوشنودی کو اہمیت دیں۔


قارئین مُکرّم!درج بالا خیالات اُن تقاریر کی تلخیص ہے جو 1990ء میں ہونے والی کشمیر کانفرنس کے دوران پاکستانی سیاست دانوں نے کی تھیں۔ آج دُنیا کی دو سو سے زائد ریاستوں میں کشمیر رقبے کے لحاظ سے سو سے زائد ممالک سے بڑا ہے، لیکن اُن سو سے زائد خُود مُختار ریاستوں کے مقابلے میں غلام ہے ، جبکہ آبادی کے اعتبار سے ایک سو تِیس سے زائد چھوٹے ممالک اس کی نسبت آزاد ہیں۔
گُزشتہ چھیاسٹھ سالوں سے دونوں ممالک کا مقتدر طبقہ کشمیر کے نام پر اپنی اپنی عوام کو بےوقوف بنا رہا ہے اور کشمیری عوام ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مُعلّق زندگی گُزارنے پر مجبور ہیں ۔ کشمیریوں کو اپنی خُود مُختاری اور سالمیت کے لئے بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی سے راہنمائی حاصل کرنا ہو گی، جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مزہب کے نام پر بننے والے ممالک کی عوام معاشی مفادات اور تہذیبوں کے تصادم پر تقسیم ہو جایا کرتے ہیں اور اس تقسیم کا باعث وہ مذہبی ، سیاسی ، اور عسکری وظیفہ خور گماشتے بنتے ہیں جنہیں ایجنسیاں تصادم کے لئے استعمال کرتی ہیں ۔


حقیقت میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ، ایم کیو ایم ، جماعت الدعوہ ، جماعتِ اسلامی ، مسلم کانفرنس ، لبریشن فرنٹ ، جمیعت علماء پاکستان وغیرہ اور ہماری عسکری قیادت کو کشمیریوں سے کوئی لگاؤ نہیں بلکہ اُن کے مفادات دریائے جہلم کے پانی ، سمندر پار کشمیریوں کے زرِ مبادلہ ، منگلہ ڈیم سے پیدا ہونے والی برقی توانائی اور اسلام آباد میں کشمیر اور کشمیریوں کے نام پر ہونے والی عیاشیوں سے وابستہ ہیں ۔


آزاد کشمیر اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کے عوام سے یکجہتی اور مہاجرین کے نام پر رکھی گئی چالیس نشستیں انہی مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال ہوتی ہیں ۔ یہ یہود و ہنود کی اُس شطرنج کے مہرے ہیں جو وہ آزادئ کشمیر کے نام پر کھیل رہے ہیں ، کیونکہ انہوں نے کشمیر کے جہاد کے نام پر ذاتی جائیدادیں تو بنائیں لیکن آزاد کشمیر کے عوام کے لئے کوئی ترقیاتی منصوبے ، کارخانے یا تعلیمی ادارے نہیں دئیے، اس لئے آزاد کشمیر آج بھی ہر لحاظ سے پاکستان کا دستِ نگر ہے۔


2005ء کے زلزلے نے تو ہماری کشمیری اور عسکری قیادت کے “کارناموں” کو خُوب بے نقاب کیا تھا۔
اگر مذہبی پیشواؤں سے مذہبی فرائض کی ادائیگی رضاکارانہ اور اخلاقی فرض سمجھ کر ادا کرنے کا مطالبہ کیا جائے اور کسی پادری ، پنڈت ، مولوی ، ذاکر اور شیخ صاحب کو عبادات کروانے کا کوئی معاوضہ یا اعزازیہ نہ دیا جا ئے تو یقین کریں نہ صرف نوّے فیصد مذہبی پیشوا اپنے فرائضِ منصبی سے سُبکدوش ہو جائیں گے بلکہ عوام اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی خُود سیکھ جائیں گے ، اِسی طرح اگر دِلّی اور اسلام آباد و دیگر شہروں میں کشمیری سیاست کے مذہبی اور عسکری شاہسواروں سے کشمیر کے نام پر لُوٹی و اینٹھی گئی دولت اُن کے کاروبار اور جائیدادیں واپس لے لی جائیں تو کشمیر میں آزادی کے نام پر شہداء کی مزید قبریں نہیں بنیں گی۔


کشمیر کا کوئی اور علاقہ ہندوستان اور پاکستان کا نیا صوبہ نہیں بنے گا ، نیلم اور جہلم کا پانی مزید بے گناہوں کی نعشوں سے سُرخ نہیں ہو گا اور ہندوستان اور پاکستان کی گیارہ سو میل کی سرحدوں پر دُخترانِ کشمیر کو اپنی عِزّت کا خراج پیش نہیں کرنا پڑے گا۔
ہم نے اسلامی نظامِ معاشرت کا جھانسہ دے کر اہلِ کشمیر سے اُن کے حقوق چھینے، کشمیر کے نام پر اپنے پیٹ اور گھر بھرے، اور ایک ہمارا پڑوسی مُلک چین جو کشمیر کے ساتھ سات سو پچاس میل طویل سرحد کا حامل ہے ہمارے لئے ایک نمونہ ہے جس نے نہ صرف کشمیر کوعملی طور پر ایک خُود مختار ریاست تسلیم کیا بلکہ اپنی اور کشمیر کی سرحدوں کے دونوں اطراف کشمیر کے نام پر کسی کو سیاسی ، مذہبی اور عسکری دُکان نہیں چمکانے دی۔


لیکن پاک و ہند کی عسکری قیادت نے کارگل جیسی مہم جوئیوں کے ذریعے افغان جنگ کی مانند مقبوضہ ہائے کشمیر کے چوٹی کے مجاہدین کو مِلّی بھگت سے صفحۂ ہستی سے مِٹا دیا اور ایک مجاہدین وہ ہیں جو جہادِ کشمیر کے نام پر 1980ء کے بعد آزاد کشمیر کے راستے پاکستان میں داخل ہُوئے۔ ہم نے تو مجاہدین کے بارے میں تاریخ میں یہ پڑھا اور سُنا تھا کہ وہ اللّٰہ پاک کی راہ میں اپنے دین اور وطن کی خاطر اپنی جان و مال قُربان کر دیتے ہیں


لیکن یہ کیسے مجاہدینِ کشمیر تھے جو جہاد کرتے کرتے مہاجر بن کر پاکستان میں غریب و مجبُور لڑکیوں سے شادیاں رچاتے ، ماہانہ وظیفہ اور راشن وصول کرتے اور آزاد کشمیر و اسلام آباد میں جائیدادوں کے مالک بنتے رہے ہیں اور ان میں سے زیادہ ہوشیار ایجنسیوں کے آلۂ کار یعنی مجاہدین کے عسکری راہنما بن کر کروڑوں اور اربوں میں کھیل رہے ہیں ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں