162

پنڈی پوسٹ کا سفر

اہل دانش کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ علاقائی مسائل کو اجاگر کرنے میں میڈیا کے کردار کو نظر انداز نہیں کیاجا سکتا۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ میڈیا کے کردار کے بغیر حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا کے دوسرے کونے سے رونما ہونے والے واقعات کو چند ہی منٹوں میں دیکھ لیتے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا کی ترقی اپنی جگہ مگر پرنٹ میڈیااور بالخصوص اخبار کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔اسی طرح حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کے لیے علاقائی اخبار کی اہمیت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔انسان بنیادی طور پر ارد گرد کے حالات سے باخبر رہنے کو اپنی زندگی کا ایک جزو سمجھتا ہے۔ان ہی کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے عبدالخطیب چوہدری (چیف ایگزیکٹو پنڈی پوسٹ) نے علاقائی اخبار ہفت روزہ اخبار پنڈی پوسٹ شائع کیا۔مختصر سی ٹیم کے ساتھ جس سفر کا آغاز کیا گیا تھا۔ نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز کے جذبے کو لے کر چند راہی منزل کی طر ف چل پڑے۔ شروع میں چند سو قاری محدود وسائل اور چند دوستوں کی ٹیم جس کے لیے قیاس آرائیاں کی جارہی تھی کہ اس کو زیادہ دیر تک شائع کرنا ممکن نہیں۔خدشہ تھا کہ دوسرے علاقائی ہفت روزہ کی طرح اس کو بھی بند کر دیا جائے گا۔ مگر بھاری بھراخراجات کے باوجود اس مسافر نے ہمت نہ ہاری۔درپیش چیلنجز کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف علاقے کا نہ صرف سب سے زیادہ پڑھے جانے والا ہفت روزہ بلکہ سو شل میڈیا کی بدولت لاکھوں قارئین کی توجہ کا مر کز بن گیا۔ مختصر ٹیم سے شروع ہونے والا یہ ہفت روزہ اپنے علاقے کی سب سے بڑی میڈیا ٹیم بن کے ابھرا۔ سب سے اہم بات کہ پنڈی پوسٹ کی ٹیم کا ہر رکن خدمت خلق سے سر شار بے لوث ہو کر اس ادارے کے لیے کا م کرتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ چند ہی عرصہ میں یہ ہفت روزہ روات،کلر سیداں، کہوٹہ اور گجر خان کی تحصیلوں پر راج کرنے لگا۔علاقہ میں شاید ہی کوئی گاؤں ایسا ہوجہاں ہفت روزہ پنڈی پوسٹ نہ پہنچ رہاہو۔ گیارہویں سالگرہ کے اس پر مسرت موقع میں بطور کالم نگار پنڈی پوسٹ،پنڈی پوسٹ کی پوری ٹیم اور بالخصوص بانی اور چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چوہدری صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں جن کے خلوص اور انتھک محنت کی بدولت آج پنڈی پوسٹ تقریباً ہر گھر میں دستک دے رہا ہے۔اس پلیٹ فارم نے نہ صرف علاقے کی اہم شخصیات کو متعارف کروایا بلکہ علاقائی مسائل کو بھی اجاگر کیا۔ عبدالخطیب چوہدری صاحب کا لگایاہوا پودا صرف گیارہ سالوں میں ایک تناور درخت بن چکاہے جس کی شاخیں کئی تشنگان علم کو سایہ مہیا کر رہی ہیں۔خداکرے پنڈی پوسٹ کا یہ گلدستہ صدامہکتارہے۔ آپ بھی اگر حالات حاضرہ سے ہمہ وقت باخبر رہناچاہتے ہیں تو پنڈی پوسٹ کے ساتھ جڑے رہے اور اپنی آراء سے ہمیں آگاہ کرتے رہیں۔ ہفت روزہ اخبار کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر وٹس ایپ، فیس بک اور انٹر نیٹ پر اپنے قارئین کو باخبر رکھے ہوئے ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں