266

پرندے

پوش علاقہ میں قائم مارکی میں ولیمہ کی دعوت لنچ شروع ہونے کا ابھی کافی وقت باقی تھا اور ابھی نماز ظہر کی ادائیگی میں بھی باقی تھا وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قریبی مسجد کی جانب نکلا تو راستہ میں ایک شاندارکوٹھی کی چھت پر پرندوں کا بار بار جھپٹنا اور پھر اڑان بھرنے کامنظر عجیب اور بالا لگا تو موبائل فون سے عکس بندی کرتے ہوئے گمان ہواکہ شادی یاختم شریف وغیرہ کی تقریب میں کھانے کے بقایات کو چھت پر پھینک دیا گیا جس سے پرندے اپنی بھوک مٹانے کے لیے جمع ہورہے ہیں اسی اثناء میں گیٹ کے کھلنے کی آواز آئی تو میں سہم گیا کیمرہ بند کرتے ہوئے موبائل جیب میں رکھ لیا گیٹ سے نکلنے والے تقریباً پنتیس سالہ جوان کی نظریں بھی میری طرح چھت ہی جانب مرکوز اور چہرہ پر ہلکی سی مسکراہٹ و خوشی جھلک رہی تھی جیسے کسی کبوتر باز کی نظریں آسمان پر نظر آنے والے کبوتروں پر ہی جمی ہوتی ہیں

اور اسکے آگے پیچھے کوئی نہیں ہوتا میں نے سلام کیا تو وہ وعلیکم سلام کرتے ہوئے میری جانب متوجہ ہوا تو میں نے پرندوں کی چہچہاہٹ کی تعریف کرتے ہوئے پوچھ لیا کہ کیا معاملہ ہے یہاں پرندے کیوں جمع ہوئے اڑان بھر رہے ہیں اور کچھ آگے پیچھے دیواروں پر بھی بیٹھے ہیں میری بات شاید ان کو بھلی لگی میرے چہرے کو بغور دیکھاساتھ ہی اندر تشریف رکھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ بتاتا ہوں میرا تجسس اپنی جگہ لیکن مجھے محسوس ہوا کہ وہ بھی خوشی اورجلدی سے کچھ بتانا چاہتا ہے ڈ ر ا ئنگ روم میں بیٹھا کرساتھ والے کمرے سے تین چھوٹے چھوٹے بیگ اٹھا لایا جن میں باجرہ چاول اور گندم کے دانے پڑے تھے مجھے دیکھاتے ہوئے بتانے لگا کہ الحمداللہ اس علاقہ میں میری اچھی پوسٹ پر جاب ہے میرا تعلق پنجاب کے ایک پسماندہ گاوں سے ہے

والدین کی دعاوں سے ذاتی شوق ومسلسل محنت کی بناء پر ہراللہ تعالی نے کا میا بیو ں سے نوازا ہوا ہے سرکاری جاب کے سلسلہ میں شہر میں آکرباد ہونا پڑرہا بچپن میں پرندے پالنے کا شوق تھا گاوں میں ہونے کی وجہ سے گرمیوں کے موسم کے دوران میں درختوں پر بنے پرندوں کے گھونسلوں سے فاختہ بلبل اور طوطوں کے بچے اور قریبی جنگل سے سیاہ رنگی کبوتر اور تیتروں کے بچوں کو پکڑ کرگھر پنجرے میں رکھ کر پالتا لیکن ا کثر یت پرورش کے دوران ہی مر جاتے یا پھر بلی کا شکار بن جاتے خوش قسمتی سے اگر پل کر اڑانے کے قابل بھی ہوجاتا وہ ایسی اڑان بھرتا کہ میں دیکھتا ہی رہ جاتا لیکن وہ واپس نہ آتا والد صاحب ہر سال تماشہ دیکھتے لیکن پڑھائی میں لائق ہونے کی وجہ سے مجھے سزا نہ دیتے اور نہ ہی اظہار ناراضگی کرتے بلکہ یہ کہہ کر چپ ہوجاتے کہ بچوں کو والدین سے جدا نہیں کرنا چاہیے یہ گناہ کبیرہ ہے لیکن میں بھی اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہوتا ایک دن مجھے پاس بیٹھاتے ہوئے نصحیت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا اگر آپ کو پرندوں کو پالنے کا زیادہ ہی شوق ہے

تو میں آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوں لیکن اس کے لیے آپ کو تھوڑے وقت کے لیے صبر کرنا ہوگا میں نے سر ہلاتے ہوئے وعدہ کیا کہ جسے آپ چاہتے ویسے ہی ہوگا اگلے روز والد محترم نرسری سے پھلدار پھولدار اور سدا بہاراقسام کے ایک درجن سے زائد پودے لاکر ایک کنال کے صحن میں لگا دئیے اتفاق سے موسم بہار کا بھی آغاز ہوا چاہتا تھا دو ماہ بھی گھر میں ہریالی اور سبزہ آنا شروع ہوا تو تتلیوں نے ہمارے گھر کا رخ کرلیا تو پہلی خوشی نے دل کو مسرور کیا بروقت پانی اور کھاد کی فراہمی جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کے لیے سپرے اور مسلسل محنت اور دیکھ بھال سے دو برس کے قلیل عرصہ میں پودوں نے اپنی رونق دکھانی شروع کردی پھولوں اور پھلوں کی بہار آئی تو پرندوں نے بھی ادھر کا رخ کرلیا صبح وشام چہچہاٹ سے گھر کا ماحول انتہائی دل آٖفریب ہوگیا

بلبل چڑیوں اور فاختہ نے گھونسلے بنانا شروع کردئیے پھل کھانے کے لیے طوطے بھی پہنچ گئے وہ پرندے جو میں پنجرے میں قید کرکے رکھنا چاہتا تھا وہ آزادی کے ساتھ میرے گھر اور نظروں کے سامنے رہنے لگے وہ اپنی بات کو بلا تعطل پوری کرنے جارہا تھامیں بھی اس کی باتوں میں پوری طرح محو ہوچکاتھامیں چونکہ جلدی میں تھا اس لیے اس کی بات میں دخل اندازی کرتے ہوئے یہ پوچھ لیا پھر یہاں یہ پرندے کیسے آگئے میرے سوال ان کی گفتگو میں جلد لحموں کا ٹھہراؤ سا آگیا پھر گویا ہوئے اچھا یہ بھی بتاتا ہوں کہ نوکری کے سلسلہ میں شہر آگیا تو ہائرنگ پر یہ رہائش گاہ مل گئی لیکن یہاں گاؤں کے گھر والا ماحول میسر نہ ہونے کی وجہ سے میں بوریت محسوس کرتا رہتا تھا

ایک دن صبح کے وقت بالکونی میں ایک فاختہ بیٹھی ہوئی نظر آئی میں نے باورچی خانے سے ایک مٹھی چاول لیکر ڈال کر دفتر چلا گیا شام کو واپسی کے وقت دیکھا تو چاول کے دانے کے موجود نہ تھے اگلی صبح اٹھا تو وہ فاختہ پھر وہاں موجود تھی میں دانے ڈال کر دفتر چلا گیا تیسرے دن حسب معمول ایک کی بجائے دو فاختہ موجود تھیں جنھیں دیکھ کر مجھے روحانی خوشی محسوس ہوئی یوں دفتر جانے سے پہلے بالکونی سے چاول باجرہ اور گندم ڈالنا میرا معمول بن گیا اس طرح پرندوں کا بھی یہ مسکن بن گیا ہر قسم کی پرندوں کی چہچہاٹ سے مجھے گاوں کا ماحول میسر ہونا شروع ہوگیا ہفتہ وار چھٹی پر گاوں جانے پر پڑوسی کو یہ ڈیوٹی سونپ جاتا ہوں

شام کو ڈیوٹی سے واپسی پر چیل اور کووں کیلئے قصائی سے گوشت لے آتا ہوں پھر ان کی بہار شروع ہوجاتی ہے ان کو دیکھتے دیکھتے شام ڈھل جاتی ہے ان کی باتوں سے بہت ہی محظوظ ہوتا رہا اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے بولا کہ ابو جی کا یہ قول میں نے ذہن نشین کرلیا تھا کہ بیٹا پروندوں کوپنجروں کو قید کرکے نہ رکھوں بلکہ گھر میں پودے لگا کر ان کی خوراک اور سائے کا ایسا ماحول بنادوں کہ پرندے آزاد ماحول میں آپ کے حقیقی دوست بن جائیں شاید آج یہی وجہ ہے کہ پرندے میرے دوست اور تنہائی کے ساتھی بن چکے ہیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں