columns 94

شفاف انتخابات

انتخابات کسی بھی ملک میں قائم جمہوری نظام کی مضبوطی اور تسلسل کا آئینہ دار ہوتے ہیں اور جمہوری معاشرے ہی تیز رفتار سے ترقی کرتے ہی اسی لیے جمہوریت پسند ممالک و معاشروں میں جب بھی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو اس معاشرے و ملک کی عوام میں ایک انجانی سی خوشی کی لہر پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ انہیں اپنے پرانے حاکموں کے محاسبے کا موقع ملتا ہے اور دوسرا ملک کی رعایا کی فلاح و بہبود بہتری اور ملک کی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کا موقع ملتا ہے ان کو یہ موقع میسر آتا ہے کہ ایسی جماعت کا انتخاب کریں جو ملک وقوم دونوں کے لیے سب سے بہتر ہو جس کا منشور ملک وقوم کے حق میں بہتر ہو جہاں بھی جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہیں وہاں انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتیں اپنا منشور عوام الناس کے سامنے رکھتی ہیں اور مختلف ٹی وی چینلز پر اپنے منشور کی وضاحت پیش کرتی ہیں

کہ ہم نے اس منشور کو کیسے پورا کرنا ہے اور اس کے لیے وسائل کہاں سے پیدا ہوں گے اور پچھلی حکومت نے کون کون سی غلطیاں کی ہیں اور ان کا مداوا کیسے ممکن ہے اور ان کا منشور دوسری جماعت سے کیسے منفرد ہے حتی کہ ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب پارٹی کا نامزد فرد اپنی پارٹی منشور پیش کرتا ہے اور ایکسپرٹ لوگ اس پر سوال و جواب کرتے ہیں کہ آپ نے یہ چیز ذکر کی ہے کہ ہم اپنے عوام کو مفت مہیا کریں گے یا سبسڈیز دیں گے تو اس کے اخراجات آپ کہاں سے پورے کریں گے یا آپ نے ریونیو میں اضافے کا اعلان کیا تو وہ ریونیو اپ کیسے بڑھائیں گے بالفاظ دیگر جس چیز کا بھی وہ اعلان کرتے ہیں اس پر اس کے اخراجات یا اس کے ذریعے آمدن کے حوالے سے سوالات اور جوابات کیے جاتے ہیں جو پارٹی اپنے منشور کے حوالے سے میڈیا پر لوگوں کو مطمئن کرتی ہے وہ پارٹی جیت کر حکومت بنا لیتی ہے اور وہ پانچ سال تک اسی منشور کے مطابق حکومت کرتی ہے اگلے پانچ سال یا چار سال کے لیے جب دوبارہ الیکشن ہوتے ہیں تو جو اقتدار میں پارٹی رہ چکی ہے اس کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ آپ کو حکومت ملی تھی آپ نے اتنا عرصہ حکومت کی ہے آپ نے اپنا یہ منشور ذکر کیا تھا کیا

آپ نے اس منشور کے اہداف کو پورا کرنے میں کتنے کامیاب ہوئے ہیں اگر وہ اہداف مکمل کر دئیے ہیں تو اب آپ کا منشور و اہداف کیا ہیں اگر نہیں کر سکے تو اس کی وجوہات کیا تھیں آپ اس کے مثال اپنے پڑوس کے ملک میں ہی دیکھ لیں عام آدمی پارٹی نے جب انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو اس نے عوام الناس کو بجلی فری، علاج فری اور لیڈیز کے لیے ٹرانسپورٹ فری کا نعرہ بلند کیا یہ نعرے بڑے ہی دلکش اور دلفریب تھے لیکن ناقابل یقین کیونکہ اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی تھی بلکہ خزانہ خالی کا ہی رونا سننا عوام کے نصیب میں تھا لیکن اس نے جب ان نعروں پر عمل کیا تو اگلے پانچ سال کے لیے نہ صرف دلی کی حکومت دوبارہ ملی بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس نے پنجاب کے اندر بھی اپنے قدم جما کر اپنے حکومت قائم کر لی اور وہاں پر بھی آ کر اس نے نعرہ لگایا کہ میں آپ کو بجلی فری دوں گا اور اس نے پہلے مہینے سے ہی بجلی فری دینا شروع کر دی یہ ہوتا ہے منشور اور اس منشور پر عمل اس طرح انتخاب قوموں کی تقدیر بدلتے ہیں ہمارے ملک میں بھی انتخابات ہوتے ہیں وہ ملک و قوم کی بہتری بھلائی اور ترقی کا ضامن بننے کی بجائے الٹا ان کے لیے آزمائش اور خطرہ کا ہی باعث بنتے ہیں جب بھی الیکشن ہوئے نئی حکومت آئی اس نے سارا وقت پہلی حکومت کو گالیاں دیتے گذار دیا یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہماری معیشت افغانستان سے بھی پیچھے ہے

1970 ء میں پاکستان کے دوسرے لیکن مکمل اور عام انتخابات پہلے تھے اور غالباً آج تک کی تاریخ کے سب سے منصفانہ غیر جانبدارانہ بھی پہلے اور آخری ہی تھے اس کے باوجود ان انتخابات کے نتائج نے ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کر کے رکھ دیے اس کے بعد77 کے انتخابات ہوئے نتیجہ مارشل لاء لگا دیا گیا 1990 ء کے انتخابات میں جو سرعام خرید و فروخت ہوئی اس نے قوم کی لیڈرشپ کو دو واضح حصوں میں تقسیم کر دیا جو اس کے بعد 10 سال مسلسل آپس میں ہی نہ لڑتی رہی بلکہ ایک دوسرے کی جانی دشمن بنی رہیں مسلسل ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتی رہیں جس کی وجہ سے جمہوریت ہمارے دیس میں پھل پھول نہ سکی ان کی یہ دشمنی صرف سیاسی حریف والی نہ تھی بلکہ یہ دشمنی ان کی ذاتیات میں گھر کر چکی تھی جس کی وجہ سے ان دونوں کو ایک دوسرے کی کوئی چیز منصوبہ بھی پسند نہیں آتا تھا اگر کسی ایک نے کوئی منصوبہ شروع کیا تو دوسرے نے آ کر بند کر دیا دوسرے نے شروع کیا تو پہلے نے آکر بند کر دیا اور یہ موقف دیا کہ یہ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں تھا اس رویے اور ضد نے ملک وقوم کے اربوں کھربوں روپے کا نہ صرف نقصان کیا بلکہ ملک آگے بڑھنے کی بجائے تنزلی کی طرف جانے لگا لیکن ہم نے وقت سے سیکھا کچھ نہیں 2008 کے الیکشن ہوئے تو بشمول جس جماعت نے حکومت بنائی ہر ایک نے الیکشن نتائج کو مسترد کر دیا اور یہ واویلا کیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے 2013

کے الیکشن ہوا تو پھر یہی بات دہرائی گئی کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے بلکہ اس دفعہ تو صرف پریس کانفرنس نہیں کی گئی بلکہ اس کے خلاف پورے تین سال تک احتجاج جاری رہا اور تاریخ کا لمبا ترین دھرنا 127 دن ڈی چوک میں دیا گیا اس کے باوجود ہم نے کچھ نہ سیکھا 2018 کا الیکشن آیا تو پھر یہی شور اٹھا کہ دھاندلی ہوئی دھاندلی ہوئی دھاندلی ہوئی اور اس حکومت کو راستے میں ہی گرا دیا گیا 8 فروری2024 کو بھی ایک الیکشن کا انعقاد ہوا اور آج 22 تاریخ ہے ابھی تک مکمل رزلٹ کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا یہ ایسا شفاف الیکشن تھا فارم 45 کے مطابق جیتا ہوا شخص فارم 47 میں ہار جاتا ہے یہ ایسا شفاف الیکشن تھا ایک ایک امیدوار کے بارہ بارہ تیرا تیرا ہزار ووٹ ضائع ہوتے ہیں یہ ایسا شفاف الیکشن تھا جس میں ایک جیتا ہوا امیدوار (حافظ نعیم الرحمن)کہتا ہے کہ میں ہارا ہوا تھا اور مجھے زبردستی جیتا دیا گیا ہے اس لیے میں یہ سیٹ قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں یہ ایسا شفاف الیکشن ہوا ہے جس میں رات کو جیتے ہوئے امیدوار صبح ہار چکے تھے یہ ایسا شفاف الیکشن ہوا ہے ملک کا پورا میڈیا فارم پینتالیس کے تحت کسی اور امیدوار کو جیتا ہوا دکھا رہا ہے اور نوٹیفکیشن کسی اور کا جاری ہو جاتا ہے یہ ایسا شفاف الیکشن تھا جس کے نتائج جاری کرتے ہوئے بلا تفریق تمام چینلز کے تمام اینکرز حیران و پریشاں تھے جو امیدوار ان کی معلومات کے مطابق بیس پچیس ہزار کی لیڈ سے جیت رہا ہوتا تھا دو گھنٹوں کے بعد وہی امیدوار تیس ہزار کی لیڈ سے ہار جاتا ہے

اس سرعام دھاندلی پر وہ بر مالا الیکشن کمیشن پر دھاندلی کے الزامات عائد کر رہے تھے جس میں پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینٹ میں سینیٹر یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ چیف الیکشن کمشنر مستفی ہو جائے اور اس پر آئین سے غداری کا مقدمہ چلایا جائے یہ ایسا شفاف الیکشن ہے کہ جس میں سرعام ایک شخص کو جتوانے کے لیے نو مئی سے لے کر یہاں تک ایک لمبی بساط بچھائی گئی لیکن وہ پھر بھی نہ جیت سکا یہ ایسا شفاف الیکشن ہے جس میں جس کو اقتدار کی کرسی پر بٹھانا تھا وہ خود بھی بے تاب تھا لیکن رزلٹ دیکھنے کے بعد اس نے واضع انکار کردیا یہ ایسا شفاف الیکشن ہے جس میں خوشی سے کوئی حکومت لینے کے لیے بھی تیار نہیں یہ ایسا شفاف الیکشن ہے جس میں جیتی ہوئی پارٹی ہارے ہوؤں سے زیادہ شرمندہ ہے آخر کب تک ہم عوام کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی سے غیرمنتخب غیر مستحکم نااہل نا سمجھ مفاد پرست ملک وقوم کے دشمن لالچی اپنے پاؤ گوشت کے لیے پورے ملک کو داؤ پر لگانے والے لوگوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھانے کے لیے ایسے ہی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کرواتے رہیں گے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں