261

شادی رسم و رواج کی بھولی بسری یادیں

ہم پرانے دور میں شادی بیاہ کی رسومات اور ثقافتی روایات کو کبھی بھی اپنی زندگی کے یادگارلمحوں سے جدا نہیں کرسکتے گوپرانی شادی کی رسومات ہمارے ثقافتی کلچر کا ایک اہم حصہ ہیں تاہم طویل عرصہ تک ہندوؤں کے ساتھ ہمارے رہن سہن سے ہندوؤں کی بہت سی روایات وثقافت ہمارے کلچرکا حصہ بن گئی یں ہیں مگر اب اہستہ آہستہ ان رسومات میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئی ہیں پہلے پہل لڑکا لڑکی کا مناسب رشتہ ڈھونڈنے کے لیے باقاعدہ طویل چھان بین کے عمل سے گزرنا پڑتا تھا اورحتمی فیصلے تک پہنچنے کیلیے باہمی معلومات وگفت شنید کے معاملات کو انتہائی خفیہ رکھا جاتا تھا تاکہ کوئی مخالف لڑکی کے گھر والوں کو لڑکے کے حوالے سے شکوک شبہات پیدا کرکے رشتہ مکرا نہ دے تاہم رشتہ پکا ہونے کے بعد ہرسو یہ خبر گردش کرنے لگتی تھی کہ فلاں کے بیٹے کا رشتہ فلاں کی بیٹی سے طے ہوگیا ہے شادی کا دن مقرر ہونے پرسب مہمانوں پرپیلا رنگ پھینک دیاجاتا تھاجس سے سب کے کپڑے پیلے رنگ میں رنگ جاتے تھے کپڑوں پرلگے پیلے رنگ کو دیکھ کرہر کوئی یہ سمجھ جاتا کہ آج فلاں کی شادی کا دن مقرر ہوگیا ہے لڑکے کے گھر والے شادی کا دن مقرر ہونے پر ختم درود کی محفل سجاتے اور اس خوشی کے موقعہ پر قریبی رشتہ داروں اورمحلہ داروں میں حلوہ تقسیم کیا جاتا محلے دار خواتین مبارکباد دینے اور پتاسے لینے پہنچ جاتیں شادی کیلیے کوئی ایک ہفتہ تو کوئی دو ہفتے دن مقرر کرتا تھااس عرصے کے دوران شادی میں شرکت کی غرض سے نئے کپڑوں اور جوتوں کی خریداری میں لگ جاتے اورشادی کے نئے جوڑے تیار کروائے جاتے تھے بلکہ اس دور میں تو درزی کو باقاعدہ گھر میں بلوا لیا جاتا تھا جہاں وہ شادی والے گھر میں پورا ہفتہ نئے کپڑوں کی سلائی میں مصروف رہتا دولہے کی شادی کا جوڑا چمکیلے گوٹے والی قمیض اور سفید شلوار پرمشتمل ہوتا تھاساتھ زری تلے کا کھوسہ یا تلے والی جوتی خریدی جاتی تھی جس سے چلتے ہوئے چر چر کی آوازیں نکلتی تھی بارات والے دن دولہا سہرا سرپرپگڑی یا ٹوپی پر باندھتا تھا سہرے پر لگی سنہری تاریں نیچے دولہے کے منہ پر گرا دی جاتی تھیں تاکہ دولہے کو کسی کی نظر بد نہ لگ جائے ووہٹی یعنی دولہن کیلیے لال سرخ قمیض اور سرخ رنگ کی شلوار خاص طور پرتیار کرائی جاتی تھی جسکے اوپر گوٹے والا سرخ رنگ کا دوپٹہ بھی خریدا جاتا تھا جبکہ امیر لوگ موتی بازار میں تلے کا کام کرنے والے کاریگروں سے دولہن کا جوڑا تیار کروا کر لے آتے تھے جس پرخوبصورت نقش ونگار بنے ہوتے تھے دولہن کے لئے بھی سرخ رنگ کی زری چپل خریدی جاتی تھی جو چمکیلے تلے سے مزین ہوتی تھی چونکہ اس دور میں ٹینٹ سروس یا شادی ہال کا رواج نہیں تھا شادی کے گھر آنے والے مہمانوں کیلیے گاؤں اور اردگرد کے رشتہ داروں سے ایک ایک چارپائی اور ایک ایک بستر مانگ کر لے آتے تھے تاکہ دور دراز سے مہمانوں کے رات ٹھہرانے کا بندوبست کیا جائے شادی میں شرکت کیلیے دعوت نامے یا شادی کارڈ بھیجنے کا رواج نہ تھا اس دور میں ہر دیہات کا ایک اپنا نائی ہوتا تھا جو گاؤں والوں کے بال کاٹتا اور فوتگی یا شادی کے موقعہ پر دوردراز اور نزدیک کے بانجی داروں کو دعوت نامے کی اطلاع کیلیے پیغام رسانی کا کام سرانجام دیتا تھا ما یوں والے دن رسم حنا میں شرکت
کیلیے دوست رشتہ دار پتاسوں یا رس وغیرہ ٹوکری میں ڈال کر لے آتے تھے دوستوں سہلیوں کے گھر دوستی کی باقاعدہ خاص بھانجی دی جاتی تھی جس میں دولہا یا دولہن کے گھر والے سپیشل مٹھائی یا پتاسے لے کر جاتے تھے ما یوں والے دن دلہن کی سہیلیاں شادی کی مناسبت سے اپنی مدھر آواز میں سریلے گیت گایا کرتی تھیں جبکہ دولہے کے دوست ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے بھنگڑے اور لڈی ڈالتے تھے بعض اوقات ایسے موقعوں پر سانگ کی محفلیں بھی سجائی جاتی تھیں سانگیے ہیر رانجھا,مرزا صاحبہ اور سسی پنو کے قصے اپنی سریلی آواز میں سنایا کرتے تھے اور لوگوں سے خوب داد وصول کرتے تھے جب کوئی ایک روپے کی بیل کراتا تو سانگیے اپنے مخصوص انداز میں نوٹوں کی بیل دینے والے کا باآواز بلند نام لے کر پکارا کرتے تھے اسطرح جوش میں آکر باقی لوگ بھی نوٹوں کی بیلیں کرانا شروع کردیتے تھے یہ محفلیں ساری رات جاری رہتی تھیں اس دوران دولہے کے دوست اور رشتہ دار شادی کی خوشی میں دولہے کے بازو پر گانہ باندھتے اور ڈھول باجے کی تھاپ پر دولہے پرنوٹ نچھاور کیا کرتے تھے اس دورکے نوجوانوں کا ہیر اسٹائل بھی خاصا قابل دید تھا ان پیسوں کو سمیٹنے کا حق صرف مراسیوں کو ہی تھا تاہم اکثراوقات اس شغل اور شور شرابے کے دوران چھوٹے بچے بھی بکھرے ہوئے کرنسی نوٹ چن کر بھاگ جاتے تھے ڈھول باجے بجنے کی آوازیں دور دور تک جاتی تھیں جس سے دور دراز کے دیہات میں بھی یہ خبر پھیل جاتی کہ فلاں دیہات میں فلاں کی شادی پر ڈھول باجے بج رہے ہیں جنج یعنی بارات سے ایک دن قبل بانجی داروں کو دولہے کے گھر والوں کی طرف سے چاول مکس چنے کی دیگیں پکوانے کا انتظام دولہے کے گھر پر ہی کر لیا جاتا تھا اورسرشام بانجی دار چھوٹی بالٹیاں اورکپڑے کی دجیاں لے کر گرم گرم چاول لینے پہنچ جاتے اور باقاعدہ پیسوں کی صورت میں بانجی دے کر کاپی پر اپنا نام بھی لکھواتے اس دور میں پانچ دس پچاس روپے بانجی عام تھی تاہم دوست احباب اور رشتہ دار سو دو سو روپے تک بانجی دیتے تھے دیگوں کے پاس دولہے کے گھر والوں کیطرف سے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کیا جاتا تھا جو آنے والے بانجی داروں کی بالٹی یا کپڑے کی بنی دجی میں آٹھ آٹھ مٹی کی رکابی بھر کر چاول ڈالتا جاتا ہاں جو گھرانے مالی لحاظ سے خوشحال اور روپے پیسے والے ہوتے تھے تو وہ گھر پر حلوائی بلا لیتے تھے جو جیلابی یا مٹھائی تیار کرتا اور اسی طرح پیکٹ بنا کر بانجی داروں میں تقسیم کیے جاتے تھے چاول کی دیگیں گھر پر ہی پکتی تھیں جس گھر میں شادی ہوتی وہ لوگ دو ماہ پہلے ہی اپنی زمین یا کسی جنگل سے کوئی پھلائی یا کیکر کا درخت کاٹ لیتے اور باقاعدہ لکڑہارا کلہاڑے سے لکڑیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دیتا تھا یہ لکڑ دیگیں پکانے کیلیے بطور ایندھن جلانے کے کام آتی تھی۔انشااللہ پنڈی پوسٹ کے اگلے ایڈیشن میں دولہے کی سج دھج بارات کی تیاری اور روانگی کے مناظر قلمند کیے جائیں گے قارئین اکرام سے گزارش ہے کہ پنڈی پوسٹ کے ساتھ جڑے رہیے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں