columns 127

سیاستدان اور فوج

پاکستان کو آزادی کی نعمت ملے پچھتر سال سے زائد وقت ہو چکا ہے اس میں تقریباً نصف سے تھوڑا کم عرصہ یہاں پر فوجی حکومت رہی جب کے ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ملک بھارت میں ایک دفعہ بھی ایسی صورتحال نہیں بنی اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ انہوں نے پہلے دن سے ہی جمہوریت کو مضبوط کیا اور1951 ء میں پہلے عام انتخابات منعقد کروائے اور پھر آج تک تھوڑی بہت جلدی یا تاخیر کے ساتھ ہر پانچ سال بعد لگاتار انتخابات منعقد کروا رہے ہیں ان کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے لگاتار16سال اور286دن حکومت کی ہے دو سال کے وقفے کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی نے گیارہ سال اور59دن لگاتار اور پھر تین سال کے وقفہ کے بعد چار سال اور291 دن حکومت کی ہے یعنی دونوں باپ بیٹی نے تقریباً 33 سال حکومت کی ہے جمہوریت کے ساتھ یعنی ہر پانچ سال بعد انتخابات منعقد کروائے اور انتخابات کے ذریعے منتخب ہو کر وزیراعظم کا منصب سنبھالاجبکہ ہمارے ہاں شروع دن سے ہی عدم استحکام رہا ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو بھرے مجمع میں قتل کر دیا گیا انہوں نے چار سال اور62 دن حکومت کی تھی ان کے بعد خواجہ ناظم الدین نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا تو وہ اس منصب پر صرف اور صرف ایک سال اور182دن رہ سکے ان کے بعد محمد علی بوگرہ دو سال اور117دن رہ ان کی تنزلی کے بعد یہ منصب چوہدری محمد علی کے حصے میں آیا وہ بھی اس منصب پر زیادہ دیر ٹک نہ سکے اور ایک سال اور31دن کی مختصر مدت کے بعد رخصت ہوگئے ان کے منصب خالی کرنے کے بعد حسین شہید سہروردی اس منصب کے حقدار ٹھہرے اور وہ ایک سال اور35دن کی مختصر مدت کے بعد ان کو یہ منصب چھوڑنا پڑا ان کے بعد ابراہیم اسماعیل چندریگر صرف60دن کے بعد گھر چلے جانے کے ساتھ ہی اب کرا فال فیروز خان نون کے نام نکلا اور295دنون کے بعد ان کو بھی گھر بھیج دیا گیا اس طرح1947سے7 اکتوبر1958تک گیارہ سالوں میں ہم نے ایک بار بھی انتخابات منعقد نہیں کروائے اور نہ ہی کروانے کی کوشش کی اور نہ ہی ٹک کر کسی کو حکومت کرنے دی ان گیارہ سالوں میں ہمارے سات وزرائے اعظم نے یہ منصب سنبھالا اسی لیے صدر سکندر مرزا نے مارشل لاء لگانے کی وجوہات میں لکھا کہ میں پچھلے دو سال سے شدید تشویش کے عالم میں دیکھ رہا ہوں کہ ملک میں طاقت کی بے رحم رسہ کشی جاری ہے بدعنوانی اور ہمارے محبِ وطن سادہ محنتی اور ایمان دار عوام کے استحصال کا بازار گرم ہے اس لیے چھ اور سات اکتوبر کی درمیانی شب1958ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافذ کر کے آئین معطل کر دیا اسمبلیاں توڑ دیں اور اپنے پرانے دوست جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نامزد کیا سکندر مرزا نے اپنا صدر کا عہدہ جاری رکھنے کی کوشش تو کی لیکن تین ہفتوں بعد 27 اکتوبر کو مارشل لا کے چیف ایڈمنسٹریڑ فیلڈ مارشل ایوب خان نے انہیں ایوان صدر سے بیدخل کر دیا آپ نے دیکھا کیسے سیاست دانوں نے خود مارشل لاء لگا کر اقتدار فوج کے حوالے کر دیا بعد میں سارا الزام فوج عائد کر دیا کہ فوج نے مارشل لاء لگا دیا اسی طرح7 مارچ 1977 کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر جسے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر نے بھی قبول کیا تحریک شروع ہوئی جو آہستہ آہستہ پورے ملک میں اس شدت کے ساتھ پھیل گئی کہ کراچی اور
حیدر آباد میں کرفیو نافذ کرنا پڑا لوگوں نے کرفیو کی بھی خلاف ورزی شروع کر دی ملتان میں لوگوں نے پولیس کے مقابلے میں مورچہ بندی کر لی جب کہ پاکستان قومی اتحاد نے سول نافرمانی کا اعلان کیا تو اس کے نتیجے میں عوام نے بینکوں سے رقوم نکلوا لیں لازمی خدمات کے بل جمع کرانے سے انکار کر دیا گیا اور اس کے علاوہ لوگوں نے حکومت کے زیر انتظام چلنے والی گاڑیوں پر بلا ٹکٹ سفر شروع کر دیا تحریک کو کچلنے کے لیے لوگوں کو بیدردی سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اس کے باوجود تحریک رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی یہ تحریک تقریباً چار ماہ چلی جولائی میں حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کچھ کامیابی کی طرف بڑھے وہیں اپوزیشن جماعتوں میں سے بعض نے مارشل لا لگانے کی حمایت شروع کر دی جس کی وجہ سے آخر کار چار اور پانچ جولائی 1977 کی درمیانی رات کو میرے پیارے ہم وطنو کی آواز بلند ہو گئی آپ نے دیکھا 8 مارچ سے 5 جولائی تک ملک جلتا رہا لوگ مرتے رہے لیکن دونوں اپنے اپنے موقف پر قائم رہے کسی نے ملک وقوم کی خاطر قربانی دینے کی کوشش نہیں کی کہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائے تاکہ ملک میں امن وسلامتی آ جائے معاملات زندگی معمول پر آجائیں (اور آج تک عوام کی بھلائی کے لیے بھی کوئی نہیں ڈٹا) ان میں سے بعض نے خود ہی مارشل لاء کی حمایت شروع کر دی یہ ساری چیزیں تاریخ کا حصہ ہیں آپ نے دیکھا جب بھی معاملاتِ ان سے بگڑے اور قابو سے باہر ہوئے انہوں نے فوج کو مجبور کر دیا کہ تم آؤ اور پھر رات کی تاریکی میں میرے پیارے ہم وطنو کی آواز بلند ہوئی یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ آپ کو یہ بات باور کرائی جائے کہ فوج خود نہیں آتی یہ بلاتے ہیں اگر یہ اتنے ہی جمہوریت پسند ہیں تو مسلم لیگ نے نوے کا الیکشن اور پی ٹی آئی نے اٹھارہ کا الیکشن آئی ایس آئی کی زیر سایہ کیوں قبول کیا چلیں الیکشن مجبوراً قبول کر لیا تو ترکیہ کے صدر طیب اردگان کی طرح آئینی ترمیم کے ذریعے ان کے کردار کو چھاؤنیوں تک محدود کیوں نہ کیا جو کوئی بھی اقتدار سے محروم ہوتا ہے تو فوج کو گالیاں دیتا ہے کوئی دہشتگردی کے پیچھے وردی کی بات کرتا ہے تو کوئی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتا رہا تو کوئی باجوہ ڈاکٹران کی بات کرتا ہے اور اب انتہا یہاں تک ہوئی کہ فوجی املاک کو نقصان پہنچا کر شادیانے بجائے جا رہے ہیں دشمن یہی چاہتے تھے پاکستانی فوج کا جو مقام و مرتبہ عوام کی نظروں میں ہے اسے ختم کیا جائے اور وہ کامیاب ہو گیا اب سرے عام فوج کو گالیاں بکی جا رہی ہیں ان پر لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں افسوس اس بات پر ہے کہ احتجاج شروع ہوتے ہی منظم انداز میں فوجی املاک کو نشانہ بنایا گیا اور سینیئر راہنماؤں کی موجودگی میں اور کسی نے منع نہیں کیا اور نہ ہی بعد ازاں مذمتی بیان دیا گیا خدارا اس روش کو بدلیں خاص کر عوام کو چاہیے کہ کسی بھی جماعت کے پیچھے آنکھیں بند کر کے نہ چل پڑا کریں بلکہ دیکھ لیا کریں کون سا کام ملک وملت کے مفاد میں ہے اور کون سا نقصان میں اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کی خیر فرمائے آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں