485

سرسیّد کا روشن ستارہ۔۔وقار احمد شیخ

شاہد جمیل منہاس
اُس دن وقار احمد شیخ صاحب میڈم خالدہ مرحومہ کا ذکر کرتے ہوئے پر نم سے ہو گئے۔ کہنے لگے ہم سب انہی کے ہاتھوں میں بنے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ ہم سب میڈم خالدہ ہی کے دستِ شفقت میں پلے پڑھے اور ذہنی بڑھوتری عطا کرنے والی ہستی بھی وہی ہے۔ میڈم خالدہ سر سیّد سکول و کالج ٹیپو روڈ کی روحِ رواں تھیں۔ آج کے دور حاضر میں وقار احمد شیخ اس سمندر نما ادارے کو اپنی صلاحیتوں اور دن رات کی کاوشوں کی بناپر روشنی کا مینار بنائے ہوئے ہیں۔ اس ادارے کی ایک خوبصورت بات یہ کہ اس میں تعلیم حاصل کرنے والے موجودہ اور ماضی کے نوجوان انتہائی سلجھے ہوئے اور بڑوں کا احترام کرنے والے ہیرے ہیں۔یہ احترام اور یہ خوبصورت تربیت تب ہی آ سکتی ہے جب کسی گھر کا بڑا یعنی باپ سلجھا ہوا ہو۔ وقار احمد شیخ صاحب انتہائی تہذیب یافتہ اور اچھے انداز میں بات کر کے دریا کی لہروں کو روک لیا کرتے ہیں کیوں کہ سمندر خاموش ہوا کرتا ہے اور اسکی خاموشی میں ٹھاٹھیں مارتا جاہ و جلال ہوا کرتا ہے۔ یہ شعر یقینا سر سیّد سکول و کالج کے روح رواں وقار صاحب کے ہی نام کر دیا جائے تو بہتر رہے گا۔
حالات کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا
تارا جو کبھی ٹوٹے تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندرمیں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
1985 سے لے کر اب تک ایک ہی ادارے میں کام کرنا اور تواتر سے محنت کرنا انتہائی کھٹن کام ہے۔ وقار شیخ نے 1985 میں اس ادارے کو بحثییت سائنس معلم جوائن کیا۔ آپ نے فزکس میں ماسٹرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ 22برس تک تدریس کرتے رہے۔ آپ کی شخصیت میں ربّ کی ذات نے بے بہا خوبیاں رکھی ہیں اور اس کے ساتھ والدین کی دُعائیں رنگ لاتی رہیں اور آپ نے بیک وقت تدریس اور دفتری معاملات سنبھالے رکھے اور یوں ایک پرائمری ٹیچر نے اس بات کو سچ ثابت کر دیاکہ Slow but steady wins the race۔ آپ نے یکم جنوری 2008 کو اس ادارے میں بطور پرنسپل اپنی جگہ بنا لی یقینا والدین کی دُعاؤں اور اپنی دن رات کی انتھک محنت کی بنا پر۔ اور آج روشن ستارے کی طرح جگ مگ کر رہے ہیں۔ اُس دن جب ڈپٹی کمیشنر محترم عامر عتیق، ایڈیشنل ڈپٹی کمیشنر محترمہ عنبر گیلانی اور آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمینٹ ایسوسی ایشن کے صدر محترم ابرار احمد خان نے سر سیّد سکول کے ہمراہ پودے لگائے تو اُس کے بعد ایک تقریب منعقد کی گئی۔ جس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ 60تا 70برس کی خواتین اساتذہ مکرم ایسے ہشاش
بشاش تھیں کہ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کسی ادارے کے سٹاف کا صبح سویرے خوشی خوشی اپنے کام پر آنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس ادارے کا سربراہ ان سے بے پناہ محبت کرتا ہے، ان سب سے اپنی فیملی کی طرح پیش آتا ہے۔الحمداللہ 2013 میں سر سیّد سکول نے میٹرک میں پنڈی بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ 2016 سے 2018 تک تیسری پوزیشن آتی رہی۔ اور یہ کریڈٹ یقینا وقار صاحب اور انکی
مخلص ٹیم یعنی اساتذہ، دفتری ملازمین اور ہونہار طلاب کو ہی جاتا ہے۔ 2020میں بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے والدین اور سکول کی انتظامیہ کاسر فخر سے بلند کر دیا۔ اس برس گرلز کیمپس نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ 2020 میں پہلے بارہ پوزیشنز میں سے 5پوزیشنز سر سیّد سکول کے حصّے میں آئیں اور یہ کسی بڑے اعزاز سے کم نہیں۔ کیا کہنے سر سیّد سکول کے کہ سکاؤٹس ٹریننگ کے دوران پانچ بار گولڈ میڈل کی صورت میں ایوارڈ حاصل کیا۔ گزشتہ 7برس سے کمیشنر ایوارڈ حاصل کیا جا رہا ہے۔انگلش اسیس مینٹ پروگرام میں یہ ادارہ اپنی مثال آپ ہے۔ آج یہ دُنیا گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے لہذا آئی ٹی کے میدان میں روشن ستارے کی طرح روشنی بکھیرنے والے ادارے کا نام سر سیّد سکول ہی ہے۔ سر سیّد پبلک سکول ٹیپوروڈ ایک میگزین شائع کرتا ہے جسے ”علیگ“کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ وقار احمد شیخ صاحب کی کارگردگی کے بارے میں پروفیسر منور علی خان نے کیا ہی خوبصورت انداز میں تحریر کیا۔ پروفیسر منصور علی خان علی گڑھ بوائز ایسوایشن کے سینئر وائس پریزیڈینٹ تھے۔ اس جھوٹے سے مضمون میں سرسیّد پبلک سکول ٹیپو روڈ، اس کی انتظامیہ اور پرنسپل وقار احمد شیخ کے حوالے سے وضاحت کرنا انتہائی مشکل ہو رہا ہے۔ اس ادارے کی کارگردگی، پرنسپل، اساتید مکرم اور دفتری میدان کے مجاہدوں کے بارے میں بیان کرنے کے لیئے کئی سو صفحات کی کتابت شائع کر کے بھی شائد مقاصد بیان نہ ہو پائیں۔ ضلع راولپنڈی اور اسلام آباد میں جب اور جہاں کہیں بھی اس ادارے اور آپ کی ضرورت محسوس ہوتی بروقت اپنی خدمات پیش کر کے یہ ثابت کیا کہ ”ہم ہیں نا“۔ اس ادارے میں امیرغریب، کالا گورا سب برابر حیثیت رکھتے ہیں۔ہر سال لاکھوں روپے یتیم اور ناداربچوں کی فیس معاف کر کے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اس کائنات میں آج بھی دردِ دل رکھنے والے افراد اور ادارے موجود ہیں۔ سر سیّد پبلک سکول اس کی زندہ مثال ہے۔ ہم نے اور آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد کے بچے بھی سگریٹ ہی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور نیک اعمال کرنے والے افراد کی اولادیں اعمال صالح کو اپنایا کرتی ہیں۔ وقار صاحب چونکہ خود نفیس، دردِ دل رکھنے والے، نرم مزاج اور رحم کا عنصر رکھنے والے افراد ہیں لہذا آپ کا سٹاف اور اس ادارے سے تعلیم حاصل کرنے والے بچے بھی انہی خوبصورت راستوں کے راہی نظر آتے ہیں۔ آج سرسیّد سکول جو کہ ٹیپوروڈ راولپنڈی میں واقع ہے اپنی بہترین کارگردگی کی بُنیاد پر روشنی کا مینار بن کر چاروں طرف جاہلیت کے اندھیروں کو چاندنی رات میں تبدیل کر رہا ہے۔ اس مینار کو دن میں سورج روشنی دیتا ہے اور رات کو چاند کی ٹھنڈی چاندنی میں یہ ادارہ نور بکھیرتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے ماضی اور حال کو اگر ایسے بیان کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
جب میں اُس گاؤں سے باہر نکلا تھا
ہر رستے نے میرا رستا روکا تھا
میں نے اپنے سارے آنسو بخش دیئے
بچے نے تو ایک ہی پیسہ مانگا تھا
شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

چوک میں خاموشی کی ڈائین بیٹھی تھی
دور کھنڈر میں آوازوں کا میلا تھا
لوگوں نے جس وقت ستارے بانٹ لیئے
اسلم اک جگنو کے پیچھے بھاگا تھا

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں