121

آبادی کا پھیلاؤ،قبرستانوں کے لیے جگہ کم پڑ گئی

چک بیلی خان، راولپنڈی اور چکوال کے درمیان میں تیزی سے ترقی کرتا ہوا شہر جہاں روزانہ ارگرد کے سینکڑوں دیہاتوں سے لوگ خرید و فروخت کیلئے آتے ہیں معاشی سرگرمیاں زیادہ ہونے کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں سے کئی لوگ اس شہر میں مستقل طور پر آباد ہو چکے ہیں جسے مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ان مسائل کے حل کیلئے کئی بار اس شہر کو مکمل تحصیل جیسا انتظامی درجہ دلوانے کی کوششیں کی گئیں لیکن سیاسی مفاد پرستوں کی مفاد پرستیاں آڑے آنے کی وجہ سے اس شہر کو کوئی انتظامی درجہ نہیں مل سکا ہاں البتہ جب بھی آواز اٹھی تو علاقہ میں مزید تھانے اور پولیس چوکیاں ہی بنانے کی طرف توجہ دی گئی مسائل کی دلدل میں پھنستا ہوا شہر چک بیلی خان جہاں اور بہت سارے مسائل کا شکار ہو رہا ہے وہاں مستقبل قریب میں لوگوں کیلئے تدفین کی زمین بھی تنگ ہوتی جا رہی ہے مخیر لوگوں کی جانب سے دئیے جانے والے قبرستان جن کی تعداد 16بنتی ہے اب بالکل بھر جانے کے قریب ہیں چک بیلی خان کا موضعاتی رقبہ شہری شکل اختیار کرتے کرتے اب اختتام کے قریب پہنچ چکا ہے شہر کے اندر زمین کی یہ حالت ہے کہ خریدار پیسے ہاتھ میں لئے پھرتا ہے لیکن زمین حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے بیرون شہر سے آکر آباد ہونے والے لوگ تدفین کیلئے یہیں کے قبرستانون میں جگہ حاصل کرتے ہیں یہاں تک کہ مضافاتی دیہاتوں سے شہر میں آکر آباد ہونیو الے بھی اپنے فوت ہونے والے اقارب کیلئے اسی شہر کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ عطیہ کئے گئے ان قبرستانوں میں جگہ کے علاوہ قبر بنانے کے دیگر لوازمات جن کا کم از کم خرچہ پانچ ہزار روپے فی قبر آتا ہے پرانے مقامی لوگ ہی برداشت کرتے ہیں علاوہ ازیں قبر کو پختہ بنانے کیلئے مقبرہ طرز پر توسیع دینے سے قبرستان کی مزید جگہ گھیر لی جاتی ہے جس سے گنجائش میں مزید کمی واقع ہو جاتی ہے اگر چک بیلی خان کو شہری اسٹیٹس حاصل ہو جائے تو بہت سارے معاملات ریاست کی ذمہ داری میں چلے جاتے ہیں لیکن بد قسمتی سے شہر کے مسائل رکھنے والے چک بیلی خان کو ارباب اختیار صرف گاؤں کی گنتی میں ہی رکھتے ہیں اور جب کبھی تحصیل کا درجہ دینے کیلئے کوئی مطالبہ کیا جائے تو سیاسی لوگوں کے دم چھلے تحصیل دفاتر کیلئے جگہ عطیہ کرنے کا بہانہ سامنے رکھ کر تحصیل کے اس کوڈ کیلئے دیگر مضافاتی دیہاتوں کے نام سامنے لے آتے ہیں جس کے باعث یہ مطالبہ تنازع کی شکل اختیار کر کے دب جاتا ہے بیرونی دیہاتوں سے نقل مکانی کر کے چک بیلی خان آنے والے کئی صاحب حیثیت لوگ اس شہر میں کروڑوں کی جائیدادیں بنا چکے ہیں سیاسی اور فیصلہ سازی کے معاملات میں بھی پیش پیش ہیں لیکن افسوس قبرستانوں کی زمین جیسے مسئلوں کیلئے ایک دمڑی بھی خرچ کرنے کو تیار نہیں پیدائشی مقیم آبادی کے درمیان اکثر تدفین کے مواقعوں پر قبرستانوں کی گنجائش ختم ہونے کے خدشات زیر بحث آتے ہیں اور متعدد مواقع پر یہ تجویز دی گئی ہے کہ مقامی آبادی کوشش کر کے بیرون شہر سے آکر آباد ہونے والوں کی یہاں تدفین پر پابندی لگا دے اور ان کی میتیں واپس ان کے شہروں اور دیہاتوں کی طرف بھیجی جایا کریں لیکن کئی خدا ترس لوگ پھر آ ڑے آ کر اس تجویز پر عملی جامہ پہنانے سے روک دیتے ہیں لیکن اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو یہ بات نظر آ رہی ہے کہ وہ وقت دور نہیں کہ جب لوگ قبر کی زمین حاصل کرنے کیلئے بھی میت سامنے رکھ کر ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوں گے لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ صاحب اختیار اور کھڑپینچ کہلوانے والے لوگ بجائے اس کے کہ سیاسی شخصیات کے ساتھ بیٹھ کر تصاویر بنوا کر اپنا قد بڑھانے کی کوشش کریں یا سیاست کو جیب بھرو مہم بنائے رکھیں اس بات کی طرف توجہ دیں کہ ایسے مسائل کو کیسے حل کیا جائے اور کہاں پر کیسے حکومتی با اختیار نمائندوں کی مدد لی جائے اسی میں ان کا اور ان کی نسلوں کا فائدہ ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں