کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے 468

ہر اینٹ سوچتی ہے دیوار مجھ سے ہے

شاہد جمیل منہاس/احساس کمتری اور احساس برتری وہ دو بیماریاں ہیں کہ جن کے نتائج کو اگر بغور دیکھا جائے تو کینسر ان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اگر ہمیں کچھ حقائق سے آگاہی ہو جائے

تو ہم دن رات ایسے مریضوں کو تندرست کرنے کے لیے تگ و دو کرتے رہیں۔احساس کمتری اکثر کسی نہ کسی حادثے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جو ایک بیماری کی شکل اختیار کرتا جاتا ہے۔احساس برتری وہ بیماری ہے جو کسی حادثے کی وجہ

سے کسی انسان کو لاحق نہیں ہوتی بلکہ اکثر خوش فہمیوں اور نمود و نمائش کے شوقین افراد کے حصے میں آتی ہے۔اس بیماری کی بڑی نشانی یہ ہے

کہ وہ انسان ہر دوسرے فرد کو خود سے بد تر اور خود کو بر تر تصور کرتا ہے اور جگہ جگہ عوام سے عزت افزائی کرواتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ایسے افراد کو Over Confident کہا جاتا ہے

جبکہ Confident ہونا کم از کم اس دور کی اشد ضرورت ہے جبکہ Over Confidence بے شمار افراد کو ناکام کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔یہ بیماری اکثر نام نہاد پڑھے لکھے طبقے میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ایسے افراد کی ڈگریاں انہیں کچھ نہیں دیتیں کیونکہ یہ افراد خود کو فن کی بلند ترین معراج پر سمجھتے ہیں۔

لیکن یاد رہے کہ جس درخت کے ساتھ پھل ہوتا ہے وہ جھکا ہوا ہوتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے کسی انسان میں انسانیت موجود ہو تو وہ جھکا ہوا ہوتا ہے اور دھیما لہجہ ہی فقط اس کی معراج ہوا کرتی ہے

۔احساس کمتری کے شکار لوگوں کو ہماری ہمدردری اور معاونت کی ضرورت ہوتی ہے ہماری تھوڑی سی محنت سے یہ افراد تندرست ہو سکتے ہیں۔

مزے کی بات یہ کہ یہ بیماری دعا سے ہی ختم ہوتی ہے نہ کہ دوا سے۔اگر میں آپ یا کوئی بھی ان دو بیماریوں میں مبتلا نہیں ہیں تو یہ اللہ کا خاص کرم ہے اور اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے

۔آج کل جن لوگوں سے میری ملاقات ہو رہی ہے ان میں ایک ایسے شخص سے میرا پالا پڑ رہا ہے جسے احساس برتری جیسی مہلک بیماری لگ چکی ہے اور اسے دیکھ کر مجھے اس پر ترس آتا ہے

جبکہ وہ خود کو فن کے اعلیٰ درجے پر فائز سمجھتا ہے۔جب میرا یہ کالم چھپے گا تو میں اسے یہ پڑھاﺅں گا۔یہ طے شدہ بات ہے کہ وہ کچھ محسوس ضرور کرے گا۔بخدا یہ قصہ بہت سے ایسے ہی میرے بھائیوں اور بہنوں کے حالات کی تصویر کشی ہے۔ایک کو تو میں کسی طریقے سے یہ کالم پڑھنے پر مجبور کر دوں گا

اور بہت سے لوگ اس کالم کو خود بخود پڑھ لیں گے۔اور کسی حد تک ان دو بیماریوں کے وائرس ان کے اندر موجود ہونے کا انہیں پتا چل جائے گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو شفاءیاب رکھے آمین

۔ ان بیماریوں کے تدارک کے لیے میں یہ تجویز پیش کروںگا کہ احساس کمتری کے شکار آدمی کے حوصلے کو بلند کیا جائے اور اسے یہ باور کرایا جائے کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور یہ کہ وہ کسی سے کم نہیں۔یعنی اس کا حوصلہ بڑھا کر اسے عام انسانوں کی صف میں شامل کر کے ہم اپنے لیے جنت خرید سکتے ہیں ۔

اس کے بعد احساس برتری کے شکار انسان کو تندرستی کی طرف لے جانا بھی ہمارا فرض ہے۔لیکن کبھی بھول کر بھی ایسے انسان کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش ہر گز نہ کیجئے گا ورنہ ماحول میں تغیانی بھی آ سکتی ہے۔ لہذا ایسے انسان کے پاس جب بھی بیٹھیں تو کچھ آیات پڑ ھ کر اپنے

اور اس کے اوپر پھونک دیں تو یقینا برے اثرات سے محفوظ رہیں گے۔اور کلام پاک کی بدولت اس انسان کی بیماری میں رفتہ رفتہ تخفیف آسکتی ہے

۔ایسے افراد کے سامنے تحمل مزاج رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن مزے کی بات یہ کہ ایسے افراد کی حرکات و سکنات اور قول و فعل سے ارد گرد کے لوگ لطف اندوز بھی ہوتے ہیں

۔ایسے افراد کے گھر والوں کے صبر کی داد دینا ہو گی۔ اگر یہ مریض غیر شادی شدہ ہے تو اس کے والدین اور بہن بھائیوں کے صبر کو سلام۔اور اگر یہ شادی شدہ ہے تو اس کی بیگم کو سو توپوں کی سلامی ۔

یاپھر بیوی کے میاں کی عظمت کو سلام اگر خدا نہ خواستہ کسی کی ذوجہ اس بیماری میں مبتلا ہے۔ ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ احساس کمتری عورتوں میں اور احساس برتری مردوں میں اکثر پائی جاتی ہے۔بیماریاں تو یہ دونوں ہی مہلک ہیں لیکن احساس برتری کا شکار انسان ارد گرد کے ماحول کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے

جبکہ احساس کمتری وہ بیماری ہے جس کا نقصان صرف متاثرہ انسان کویا ذیادہ سے ذیادہ اس کے خاندان تک محدود رہتا ہے۔توجہ طلب بات یہ ہے

کہ اگر احساس برتری کے شکار افراد صوبائی یا قومی اسمبلی کا حصہ بن جائیں تو ہمارے ملک کے حالات و واقعات کے ساتھ کیا ہو گا؟اگر یہ پولیس کے محکمے میں اعلیٰ افسران بن جائیں تو امن و امان کے کیا حالات ہونگے؟اور اگر یہ لوگ سکول کالج یا کسی یونیورسٹی میں کسی عہدے پر فائز ہو جائیں

تو قوم کے بچوں کا مستقبل کیاہو گا؟غرض یہ کہ inferiority Complexیا Superiority Complex انتہائی تباہ کن حالات پیدا کر سکتے ہیں ۔احساس کمتری سے متاثرہ فرد از خود نقصان میں رہتا ہے

جبکہ احساس برتری قوموں کو تنزلی کی طرف دھکیل سکتی ہے اگر ایسا متاثرہ انسان کسی قوم کی بھاگ دوڑ سنبھال لے تو؟جانے سے پہلے ایک شعر اس موضوع کے حوالے سے گوش گزار کرتا چلوں
خوش فہمیوں کے سلسلے کتنے عجیب ہیں
ہر اینٹ سوچتی ہے دیوار مجھ سے ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں