حذیفہ اشرف
huzaifaashraf8340@gmail.com
یکم نومبر کا سورج جب برف پوش پہاڑوں کے پیچھے سے طلوع ہوتا ہے تو گلگت بلتستان کی فضا میں آزادی کی خوشبو بکھر جاتی ہے۔ یہ دن اُن بہادر سپوتوں کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے سرد و سنگلاخ وادیوں میں اپنے خون سے تاریخ لکھی، جب 1947 میں انہوں نے ڈوگرہ راج کی غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی بنیاد رکھی۔ اس روز گلگت اسکاؤٹس اور عوام نے مل کر اپنی سرزمین کو آزاد کرایا اور سبز ہلالی پرچم بلند کیا — یہ وہ لمحہ تھا جب شمال کے برفیلے پہاڑوں سے وفاداری، قربانی اور عزم کی ایک نئی کہانی لکھی گئی۔آج جب ہم یومِ آزادی گلگت بلتستان مناتے ہیں تو یہ صرف ایک تاریخی دن کی یاد نہیں، بلکہ یہ احساس بھی تازہ ہوتا ہے کہ آزادی صرف ایک اعلان نہیں، بلکہ مسلسل جدوجہد، خود داری اور ذمہ داری کا نام ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام نے آزادی حاصل کی، مگر ابھی بھی ان کی منزل مکمل نہیں۔ آزادی کے بعد بھی اس خطے کے لوگوں نے اپنے حقوق، شناخت اور شمولیت کی جدوجہد جاری رکھی۔گلگت بلتستان کی آزادی کی کہانی کسی عام جدوجہد کی داستان نہیں بلکہ ایک ایسے عزم کی علامت ہے جو ناانصافی، جبر اور غلامی کے خلاف اُٹھا۔ یکم نومبر 1947 کو بریگیڈیئر گھنسار سنگھ کے اقتدار کا خاتمہ ہوا، گلگت اسکاؤٹس نے علمِ آزادی بلند کیا اور ایک مختصر مدت کے لیے “آزاد ریاست گلگت” کا قیام عمل میں آیا۔ چند ہی دنوں بعد اس خطے نے اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا، اور یوں پاکستان کے نقشے میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آزادی کے اس سفر نے اپنی اصل منزل پا لی؟ گلگت بلتستان آج بھی اپنی آئینی حیثیت کے تعین کے انتظار میں ہے۔ اس خطے کے عوام نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ وفاداری نبھائی، مگر بدقسمتی سے وہ سیاسی اور معاشی شراکت جو اُن کا حق تھی، آج تک مکمل نہ ہو سکی۔ آزادی کے 78 سال بعد بھی یہاں کے لوگ بجلی، تعلیم، صحت اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔یہ خطہ پاکستان کا دروازہ بھی ہے اور سی پیک جیسے عالمی منصوبوں کی بنیاد بھی، مگر اس کے باسی اب بھی اپنی شناخت کے لیے سوال اٹھانے پر مجبور ہیں۔ ان کی آواز ہے کہ اگر ہم نے آزادی کے لیے جانیں دی ہیں تو ہمیں ترقی، خودمختاری اور فیصلہ سازی کے حق سے کیوں محروم رکھا گیا؟تاہم، ان چیلنجوں کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام میں امید کی کرن زندہ ہے۔ یہاں کے نوجوان تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اپنے علاقوں کے مسائل پر آواز بلند کر رہے ہیں اور اپنے خطے کو پاکستان کی ترقی میں شامل کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کے اندر وہ حوصلہ اور روشنی ہے جو ہر مشکل کو عبور کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج گلگت بلتستان میں علم و شعور کی نئی لہر اُبھری ہے، جو ماضی کے ہیروز کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی سمت بڑھ رہی ہے۔یومِ آزادی کا دن ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ آزادی صرف بیرونی تسلط سے نجات نہیں بلکہ انصاف، مساوات اور عزتِ نفس کے ساتھ جینے کا حق ہے۔ اگر کسی علاقے کے لوگ تعلیم، صحت، انصاف اور نمائندگی کے حق سے محروم ہوں تو وہ آزادی نامکمل رہتی ہے۔ اس لیے ریاستِ پاکستان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کو آئینی اور عملی طور پر ملک کا مکمل حصہ بنائے۔اس خطے کے وسائل اور قدرتی حسن کو محفوظ بنا کر پاکستان کے معاشی نقشے میں اسے مرکزی کردار دیا جا سکتا ہے۔ سیاحت، معدنیات، توانائی، اور زراعت کے شعبوں میں یہاں لامحدود امکانات ہیں۔ اگر ریاست اور عوام مل کر ترقی کا نیا ماڈل تیار کریں تو گلگت بلتستان جنوبی ایشیا کا ترقی یافتہ خطہ بن سکتا ہے۔یکم نومبر ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ آزادی کا جشن صرف ماضی کی یاد نہیں بلکہ مستقبل کا عہد بھی ہے۔ وہ عہد جس میں گلگت بلتستان کے لوگ اپنے خوابوں کو حقیقت بنائیں گے، اپنی پہچان کو مضبوط کریں گے، اور اپنی قربانیوں کا پھل دیکھیں گے۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کے اس سفر کی تکمیل تب ہوگی جب گلگت بلتستان کے عوام کو وہی حقوق، وہی مواقع، اور وہی عزت دی جائے گی جو پاکستان کے ہر شہری کا حق ہے۔ برف سے ڈھکی یہ وادیاں صرف قدرتی حسن نہیں، بلکہ قربانی، غیرت اور وفاداری کی علامت ہیں۔یومِ آزادی گلگت بلتستان ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ یہ خطہ پاکستان کی روح کا حصہ ہے — اور جب تک اس کے باسی مکمل انصاف، خود اختیاری اور خوشحالی نہیں پاتے، ہماری قومی آزادی بھی مکمل نہیں کہلا سکتی۔