بلدیاتی نمائندوں کو اختیارات نو ماہ گزرنے کے باوجود نہ مل سکے جس کی وجہ سے نہ صرف عوامی نمائندے بلکہ عوام میں بھی مایوسی پائی جاتی ہے کیوں نہ ہو اس مرتبہ تو ایک ایک کونسلر نے لاکھوں روپے خرچ کیے اور ووٹروں کو کئیں موبائل تقسیم کیے گئے کئیں بالٹیاں وہ بھی خالی نہیں ان میں مٹھائیاں بھی لفافے بھی اور کئی جگہوں پر چوڑیاں بھی تقسیم کی گئی ۔پاکستان کی سیاست میں جہاں ایم پی اے ،ایم این اے کے الیکشن میں کونسلرز کی سطح پر لاکھوں اور چیئرمین شپ کے لیے کروڑوں روپے خرچ ہوئے بہر حال اتنے خرچے کے باوجود ان کو اگر فنڈز اور اختیارات نہیں ملیں گے تو پریشانی تو ان کو ہوگی ۔کہوٹہ کی دس یونین کونسلوں کے چیئرمینوں نے اتحاد کیا اور ہر ماہ ان کے اجلاس بھی ہوتے رہے ۔ہر ماہ کے بعد ایک یوسی کا چیئرمین اجلاس بلاتا تھا جہاں پر اجلاس
کے بعد سینکڑوں افراد کو کھانا بھی دیا جاتا تھا ۔مگر چند ماہ سے شاید یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا ہے اور اب مکمل خاموشی نظر آرہی ہے جبکہ میونسپل کمیٹی میں بھی سیاسی گہما گہمی نہ ہونے کے برابر ہے ۔بیچارے ان نمائندوں کو نہ جانے مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔ میونسپل کمیٹی میں شروع کے وقت دو گروپ بنے اس کے بعد شہر کے مسائل کے حوالے سے تمام کونسلرز اگھٹے ہوئے مگر نہ مسائل حل ہوئے اور نہ کرپشن ختم ہوئی۔ٹی ایم اے کہوٹہ جو پہلے ہی کرپشن کا گڑھ بن چکا ہے کئی سالوں سے تعینات انجینئرزاور یگر افسران سالانہ کروڑوں کے ٹھیکے دیتے ہیں اور ناقص میٹریل کا استعمال کر کے اور کاغذی کاروائی میں منصوبے پاس کراکر فنڈز کا تقریباً 40فیصد وہ خود وصول کرلیتے ہیں۔ حال ہی میں پنجاڑ چوک سے جیوڑہ تک سڑک کی مرمت کے لیے تین کروڑ کے فنڈز دیئے گئے جس کو ٹھیکیداروں اور عملہ کی ملی بھگت سے معمولی سی تارکول مار کر ٹوکریوں سے بجری ڈال کی گئی جو پہلی بارش میں ہی بہہ گئی اور سڑک کا سارا میک اپ اتر گیا ۔اب شاہد خاقان عباسی صاحب نے فنڈز تو دیئے مگر اس کا فائد ہونے کی بجائے قومی خزانہ کو نقصان پہنچا‘بلدیاتی نمائندوں کو پنجاب حکومت کب ان کو اختیارات دیتی ہے اور ان کا ایجنڈا کیا ہوگا کہوٹہ میں سیاسی جماعتیں بھی گروپوں میں تقسیم ہیں اور عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ حتی کہ اس مرتبہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے بھی کہوٹہ میں کسی جماعت نے احتجاج نہیں کیا۔تحصیل کہوٹہ میں سیاسی گروپ بندی کی وجہ سے جہاں کارکن اور ورکرز پریشان ہیں وہاں عوام علاقہ بھی ترقی کے ان ثمرات سے محروم ہیں جو یہاں ہونے چاہیے تھے۔ اس وقت تقریباً ہر جماعت میں ذاتی مفادات کی سیاست ہو رہی ہے چند لوگ جو ان سیاسی گروپوں سے وابستہ ہیں اپنی مرضی کے کام کرتے ہیں نوکریاں ہوں یا ترقیاتی منصوبے یا دیگر معاملات صرف ان چند لوگوں سے مشاورت لی جاتی ہے ۔سیاسی کشمکش کی وجہ سے 22کرو ڑ روپے کا واٹر سپلائی کا منصوبہ کرپشن کی نظر ہوگیا کہوٹہ شہر میں بااثر سیاسی شخصیات نے نواز کالونی، ارم سکول کے قریب اور دیگر علاقوں میں ندی نالوں پر قبضے کر کے ان کو بند کیا ہوا ہے جبکہ 8کروڑ روپے کا سیوریج کا منصوبہ جوکہ سابق ناظم راجہ طارق محمود مرتضیٰ نے دیا تھا اس وقت کے ناظمین اور محکمہ پبلک ہیلتھ کی ملی بھگت سے چند گلیاں بنا کر اس منصوبے کو ختم کر دیا گیا جس کی وجہ سے ان ندی نالوں میں تجاوزات کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں نالے کے پانی میں بہہ گئی ۔عوام اپنے نمائندوں اور حکومت سے یہ سوال کرتی ہے کہ کیا اس ایٹمی تحصیل کے لاکھوں عوام کو اس جرم کی سزا مل رہی ہے کہ انہوں نے پاکستان کی سلامتی استحکام کے لیے اپنے گھر بار چھوڑے ،قربانیاں دیں ؟حساس علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کوئی این جی اوز بھی کام نہیں کرسکتیں نرڑ،پنجاڑ اور دیگر یونین کونسل مری کی خوبصورتی سے کم نہیں مگر چاہیے تو یہ تھا کہ ان علاقوں میں سڑکوں کے جال بچھائے جاتے ،پارک بنائے جاتے دیگر سہولیات میسر کی جاتیں تو پھر پاکستان بھر سے لوگ ان علاقوں میں سیر و تفریح کے لیے آتے جس سے یہاں کے لوگ کاروبار کرتے اور حکومت کی بھی آمدن ہوتی مگرا س کے برعکس آج اس علاقے کے بے روزگار نوجوان منشیات فروشی ،چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ہوکر اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں جبکہ ان سر سبز جنگلات کی حفاظت کے بجائے لکڑی چوروں نے گاجر مولی کی طرح ان گھنے جنگلوں کو کاٹ کر اس علاقے کے حسن کو تباہ وبرباد کردیا ہے اس وقت اس علاقے میں ایک ہی مرد مجاہد ہے جس نے نہ صرف تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا کیا بلکہ جنگلات کو بچانے کے لیے اہم کردار ادا کیا اس کو تاریخ میں یاد رکھا جائے گا ایسی شخصیت جس کی وجہ سے اس علاقے کے جھگیوں والے بچوں پر بھی نظر ہے وہ ہے بریگیڈیئر(ر)جاوید جس کے دل میں اس علاقے کے لوگوں،بچوں ،جنگلات سے اس قدر محبت ہے جس کو بیان کرنا مشکل ہے۔{jcomments on}