پاکستان کا قومی کھیل ہاکی ہے لیکن ہماری قوم میں ہاکی سے زیادہ کرکٹ کا کھیل مقبول ہے۔ اور یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ہماری قوم کرکٹ کی دیوانی ہے۔ اور یہ دیوانہ پن کھیلنے سے زیادہ دیکھنے میں دکھائی دیتا ہے ۔ جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کسی ٹیم کے خلاف کھیلتی ہے تو پوری قوم سارے کام چھوڑ کر ٹیم کی جیت کیلئے دعاؤں میں مشغول و محو ہو جاتی ہے۔ موجودہ ملکی حالات میں جہاں ہر طرف مایوسی ‘دہشگردی ‘ ظلم و بربریت کا دور دورہ ہے ۔ لوگ انتشار کا شکار ہو چکے ہیں ۔تو ان حالات میں کرکٹ ہی ایک ایسا کھیل ہے جو قوم کو یکجا کر دیتا ہے ۔ اور لوگ پنجابی سندھی ‘بلوچی اور پٹھان کی تفریق سے نکل کر ایک پاکستانی ہو کر سوچتے ہیں او ر پاکستانی کرکٹ ٹیم کی جیت کیلئے امیدیں لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کرکٹ کی تاریخ میں ہر چار سال بعد کرکٹ کا عالمی میلا سجتا ہے جسے ورلڈ کپ کا نام دیا جاتا ہے ۔جس میں دنیا بھر سے ٹیمیں پنجہ آزمائی کیلئے شامل ہوتی ہے۔ اور ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ یہ عالمی کپ جیتے اورکرکٹ کی دنیا پر آئندہ چار سال تک راج کرے۔اور ہمارے پیارے پاکستان جیسے ملک میں تو ایسے مقابلے کا بڑے بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے کیونکہ اس موقع پر پوری قوم یکجا نظر آتی ہے۔ سال 2015کا ورلڈکپ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں مشترکہ طور پر جاری ہے ۔ اس ورلڈ کپ میں دنیا کرکٹ کی 14بہترین ٹیمیں شامل ہیں ورلڈکپ سے قبل پاکستانی ٹیم نے بھی خوب تیاری کی اورپاکستان کرکٹ بورڈ نے بلند و بالا دعوؤں کے ساتھ اپنے بہترین15کھلاڑیوں کو تیار کر کہ بھیجا ۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے کچھ کھلاڑی انجری کا شکار ہو گئے ۔ جن میں مایہ ناز باولر جنید خان انجری کی وجہ سے ٹیم کے ساتھ نہ جاسکے ۔اس کے بعد اوپننگ بیٹسمین محمد حفیظ کو واپس بجھوا دیا گیاکہ وہ بھی کھیل کے دوران زخمی ہوگئے ۔ تو گویا پاکستان ٹیم کی مشکلا ت کا آغاز ہوچکا تھا ۔ پاکستان کا پہلا میچ روایتی حریف بھارت کے ساتھ تھا۔ اور پوری قوم کی توجہ اس میچ پر مرکوز تھی ایسے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف سے مذکرات کی بات کر دی۔اور عوامی حلقوں میں ایک بار پھر تشویش پائی جانے لگی کے کیا پچھلے ورلڈ کپ میں جب سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی صاحب پاک بھارت سیمی فائنل دیکھنے جا پہنچے تھے اور پاکستان وہ میچ ہار گیا تھاتو کیا اس بار بھی یہ خطرے کی گھنٹی ہے بھارت کو عین ورلڈکپ کے میچ کے ٹائم ہی مذاکرات کی یاد کیوں آتی ہے یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے میچ کے دن پوری قوم سب کام چھوڑ چھاڑ کر میچ دیکھنے بیٹھ گئی ۔ اور چھٹی کے دن جو لوگ دن دیر تک سوتے ہیں وہ بھی میچ کیلئے صبح سویرے اٹھ کر ٹی وی کے آگے بیٹھ گئے ۔ اور آخر میں نتیجہ وہی رہا پاکستان چھٹی بار ورلڈکپ میں بھارت سے ہار گیا۔ ہاں ایک فائدہ ضرور ہوا کہ اس دن لوڈ شیڈنگ نہیں کی گئی مگر لوگوں کی سب دعائیں بے کار گئیں ۔اور لوگوں نے غصے میں ٹی وی توڑے اور کچھ نے سوشل میڈیا پر اپنے دل کی بھڑاس نکالی اور کچھ نے تو دل کو تسلی دینے کیلئے یہ کہا کہ چلو کوئی بات نہیں ہمارا قومی کھیل تو ہاکی ہے ۔کچھ نے کہا کہ جو کچھ پڑھا اور جودعائیں ہم نے کرکٹ ٹیم کیلئے کی ہیں وہ ہم اپنے مرحوم بزرگوں کیلئے ایصال ثواب کرتے ہیں۔خیر اس میچ کو تو قوم نے کسی طرح بھلا دیا اور پھر سے پر امید ہو گئی کہ چلو کوئی نہیں یہ تو پہلا میچ تھا اگلا میچ جیت جائیں گے ۔ اگلا میچ ویسٹ انڈیز کے ساتھ شیڈول تھا جسے کالی آندھی کہا جاتا ہے ۔اور کالی آندھی نے پاکستانی شاہینوں کو بری طرح روند ڈالا اور پاکستان کے کروڑوں عوام کے جذبات کو ایک مرتبہ پھر ٹھیس پہنچی ۔اس سے اگلے روز ہی پاکستانی ٹیم کے چیف سلیکٹر معین خان کا سکینڈل سامنے آگیا۔ جناب کسینو میں جواء کھیلتے پائے گئے ۔ توبجائے شرمندہ ہونے کہ بیان دیا کہ میں تو کھانا کھانے گیا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ اتنی بڑی بات بن جائے گی ۔ اور فرضی معافی مانگی اور پی سی بی کے حکم پر وطن واپس لوٹ آئے۔ جب ائیر پورٹ پر پہنچے تو عوام گندئے انڈوں کے ساتھ ان کے استقبال کیلئے موجود تھی مگر وہ اپنی جان بچا کر عقبی دروازے سے بھاگ نکلے اور میڈیا کے سامنے بھی نہ آئے۔ اب سوال تو یہ پیدا ہوتا کیا ٹیم میں کھلاڑی کھیل نہیں پا رہے یا انہیں کھیلنے ہی نہیں دیا جا رہا ۔ اور اگر ان سے کھیلا نہیں جار ہا تو ایسی ٹیم سلیکٹ بھی تو معین خان نے ہی کی نا؟اب عوام نے پی سی بی کے سامنے یہ سوال رکھا کیا بیس کروڑ کی آبادی میں سے آپ نے یہ 15لوگ ورلڈکپ کیلئے بھیجے ہیں ۔ جو وہاں جا کر پاکستان کے 20کروڑ عوام کے جذبات کی دھجیاں اڑرہے ہیں ۔اور باقی رہی سہی کسر معین خان نے نکال دی۔ بورڈ کے سابق چیرمین نجم سیٹھی نے کہا کہ ٹیم سے کوئی امید نہ رکھیں کہ ورلڈ کپ جیت کر آئیں گے ۔اور پی سی بی کے موجود ہ چیئرمین کہتے ہیں کہ کھیل میں جیت ہار تو ہوتی ہے عوام حوصلہ رکھے اور اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ تو محترم چیئرمین صاحب کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہے ۔مگر پاکستان کی موجودہ ٹیم تاریخ کی سب سے کمزور ترین ٹیم قرار دی گئی ۔کیا آپ نے انتظامیہ کے عہدایدران اور کھلاڑیوں کو وہاں گھومنے بھیجا ہے۔جو کسینو میں جوآء کھیلنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان کا اگلا میچ آج زمبابوئے کے ساتھ شیڈول ہے ۔ مگرپاکستانی عوام اب مایوس ہو چکے ہیں اور ان کے خیال میں اب تو کوارٹر فائنل تک رسائی بھی ناممکن دکھائی دیتی ہے ۔کچھ نے کہا کہ یہ ٹیم تو کسی گلی محلے کی ٹیم سے بھی نہیں جیت سکتی ۔
راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر کا کہنا تھا کہ اس ٹیم کی فٹنس سے بہتر تو میری ستر سالہ پھوپھی کی فٹنس بہتر ہے ۔ ان سب باتوں سے قطع نظر کرکٹ کے کچھ دیوانوں کو اب بھی امیدیں ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں 1992کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے حالات کچھ ایسے ہی تھے اور ٹیم پہلے دو میچ بھارت اور ویسٹ انڈیز سے ہاری تھی اور بعد میں عالمی کپ عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے ہی جیتا تھا۔اسکے علاوہ اور بھی بہت سی باتوں کو 1992کے ورلڈ کپ سے تشبیہ دی جارہی ہے اور امید کی جارہی کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہرائے گی۔موجودہ ٹیم کو دیکھ کر تو ایسا کچھ نہیں لگتا مگر معجزے اسی دنیامیں ہوتے ہیں اور کرکٹ کے بارئے میں وقت سے پہلے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔اور امید ہے کہ قوم کی دعائیں رنگ لائیں گی اور پاکستانی ٹیم آئندہ میچوں میں اچھا کھیل پیش کرے گی اور کامیابی سے ہمکنار ہو کر لوٹے گی{jcomments on}..
110