رنگ روڈ پر اربوں روپے کی کرپشن کا پردہ فاش

کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی قربانی اطاعت خداوندی کی تکمیل

تحریر تابندہ سلیم ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن راولپنڈی ڈویژن

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

کربلا کے میدان میں امام حسین علیہ السلام کی اپنے خاندان سمیت قربانی درحقیقت اللہ سے محبت اور اس کی وحدانیت کو قیامت تک منوانے کی عملی مثال ہے جس کی تا قیامت کوئی اور مثال نہیں ملی ہے نہ مل سکتی ہے۔حضرت امام حسین علیہ السلام نے دین خداوندی کو بد کردار اور لادین لوگوں سے بچانے کے لیے جو اپنی اور اپنے خاندان کی قربانی دی وہ قیامت تک کی انے والی نسلوں کے لیے عقیدہ توحید و رسالت کا بول بالا کرنے کے لیے دی گئی تھی ۔امام حسین علیہ السلام نے ہر دور کے منافقین کو میدان کربلا میں بے نقاب کر دیا اور یزید کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلت کی علامت بنا دیا یزید نے یہ سمجھا تھا کہ خاندان رسالت کا خاتمہ کر کے وہ حکمرانی بھی کرے گا اور لادین قوانین رائج کر کے معاذ اللہ ، اللہ کی وحدانیت کو چیلنج کر کے اپنا بنایا ہوا کفر پر مبنی دین رائج کرے گا ۔اگر امام عالی مقام کربلا میں اللہ کی وحدانیت اور توحید و رسالت کی حفاظت نہ کرتے اور یزید کی بیعت کر لیتے تو اج دنیا میں کوئی اسلام کا نام لینے والا نہ ہوتا اور اللہ نے جس مشن کے لیے پیغمبر اور رسول زمین پر اتارے جو اللہ کی وحدانیت کا درس دیتے اور لوگوں کو بتاتے کہ اس کائنات کا نظام چلانے والی صرف ایک ہی معبود، واحد اللہ کی زات ہے، کبھی مکمل نہ ہو پاتا ۔اور آج ہر طرف کفر کا دور دورہ ہوتا، معاشرے میں بے حیائی، بے راہ روی، بدخلاقی بدکرداری بدعنوانی،٦ غرض ہر طرح کی برائی اور کفر و شرک کا دور دورہ ہوتا۔حضرت امام حسین عالی مقام علیہ السلام نے اللہ اور اس کے رسول کے دین کی حفاظت کے لیے اپنے خاندان کے چھ ماہ کے بچے سے لے کر 18 سال کے جری جوان بیٹے بھائی بھتیجے بھانجے سمیت 72 جانٹاران اسلام قربان کر کے اللہ سے محبت اور اطاعت کی لازوال اور عظیم مثال رقم کی ۔

*
کربلا ہر انسان کے سینے میں یوں رکھ دی گئی
ایک منٹ میں دل دھڑکتا ہے 72 مرتبہ*

اگر آپ ابھی تک کربلا نہیں گئے تو ایک مرتبہ ضرور جائیں۔ اگر نہیں جا سکتے تو کربلا کو سمجھنے، جاننے اور جانچنے کی کوشش ضرور کریں۔ کربلا کو لمس اور محسوس کرنے کے بعد دنیا و آخرت دونوں کے بارے میں آپ اپنا نکتہ نظر تبدیل ہوتا پائیں گے۔ یہ تبدیلی اگر شروع ہو گئی تو پھر رکنے اور ٹھہرنے والی نہیں۔
کئی سال پہلے جب مجھے پہلی مرتبہ کربلا کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ دینِ اسلام فقط نماز و روزے تک محدود دین نہیں اور امام حسین علیہ السلام فقط ماتم، نوحے اور عزاداری کے امام نہیں۔ اس کے بعد جب بھی مجھے کربلا کے بارے میں کچھ سننے، جاننے یا سفر کرنے کی توفیق ملی تو ہر بار مجھے کربلا میں عبادت و معنویت، ایثار و قربانی، یقین محکم، عمل پیہم، اور خلوص و محبت سے آمیختہ ایک خاص تمدن دکھائی دیا۔
ایک ایسا تمدن جس کی بنیاد خلوص،شعور، تحقیق اور ایثار و قربانی پر استوار ہے۔ میں نے اس تمدن کی جڑیں غار حرا میں اور اس کا ثمر نوک نیزہ پر آویزاں سروں کی صورت میں دیکھا۔
میں نے شام غریباں کے منظر میں پھیلتے ہوئے دھوئیں کے بادلوں میں لہلہاتے ہوئے اسلام کو دیکھا۔۔۔ اور میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ حسن یوسف کی مانند ان آویزاں سروں نے عالم بشریت کو اپنی طرف کھینچ رکھا ہے۔ اب نوک نیزہ پر سر نہیں مجذوب و مغموم انسانوں کے دل ہیں۔
اب نوک نیزہ پر آویزاں سروں کی زیارت کا یہ عمل کسی لمحے متوقف نہیں ہوتا۔ اب کہیں خوشی ہو یا غم ،ہر جگہ آپ کربلا محسوس کر سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ آپ باشعور اور محقق انسان ہوں چونکہ شعور اور تحقیق کے بغیر جو بھی ہے وہ خرافات و توہمات کا ڈھیر ہے۔
انسانی شعور کی وہ معراج جہاں انسان اپنے احساسات، جذبات، جان، خون، جستجو، تحقیق اور ظاہر و باطن کے ساتھ بالکل شفاف انداز میں اپنے خالق و مالک اور اپنے رب کی رضا کو پالیتا ہے اسے حسینیت کہتے ہیں۔
جب ایک قدم کربلا کی طرف اٹھے تو ایک قدم حسینیت کی طرف بھی اٹھائیے۔
میں نے کربلا میں حسینیت کو دیکھا ۔
میں نے دیکھا کہ حسینیت کے محراب میں عبادت فقط ایک خدا کے نام کی تسبیح پڑھنا نہیں بلکہ ایک خدا کے نام اور احکام کو زندہ کرنا ہے۔
سید الشہداء اور ان کے ساتھیوں کے طرز عمل میں توحید کا نمایاں اظہار موجود ہے۔
انہوں نے ثابت کیا کہ اگر خدا کی رضا اور غیر خدا کی خوشنودی میں سے ایک کو انتخاب کرنا پڑے تو صرف خدائے واحد کی رضا کو اختیار کریں۔
یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے امام حسینؑ کا کھلا پیغام اور اٹل فیصلہ ہے۔

اسلام کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان صرف ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں بلکہ اسلام کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی عبادات و مادیات، جینا و مرنا، شادی و پریشانی، خوشی و غم، موت و حیات، دوستی دشمنی، جنگ و صلح، دشمن پروری و رشتے داری، آداب و رسوم سمیت ہر فعل اور ہر شعبہ یہ گواہی دے کہ خدائے وحدہ لاشریک کی ذات ہر جگہ حاکم ہے۔
دین اسلام میں ایسی کسی بھی کتاب، کلام، شخصیت، عمارت یا ہنر کی کوئی گنجائش نہیں جس میں خدائے واحد و یکتا کے علاؤہ کسی اور کی جھلک نظر آئے۔
*چنانچہ میں نے کربلا میں دیکھا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی تابندہ قربانی میں سوائے قرب خداوندی کے کوئی دوسری جھلک ہے ہی نہیں ملتی۔
جہان توحید میں آپ کو ایک رول ماڈل، ہیرو اور نمونہ عمل کی حیثیت اس لئے حاصل ہے کہ آپ نے اپنے قول و فعل سے اپنے ارادے اور عمل پر توحید کی حاکمیت کو ثابت کیا۔
مسلمانوں کے ہاں آپ کو محسنِ اسلام کا درجہ حاصل ہے۔ چونکہ اگر اکسٹھ ہجری میں آپ خدائے وحدہ لاشریک کی توحید اور یکتائی کو اپنی قربانی سے سچا ثابت نہ کرتے تو دنیا میں اسلام جیسے توحیدی دین کا شیرازہ بکھر جاتا۔
چنانچہ سارے عالمِ اسلام میں حضرت امام حسین ؑ سے منسوب ایام کو اور خصوصاً چہلمِ امام حسینؑ کو انتہائی عقیدت و احترام اور دینی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

آپ کی قربانی کی نمایاں برکت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں آپ کی شہادت اور چہلم کی محافل و مجالس اور جلسے، جلوسوں میں امر بالمعروف و نہی از منکر کو زندہ کیا جاتا ہے۔
امر بالمعروف در اصل خدائے واحد کی اطاعت کا نام ہے اور نہی از منکر اس ذات کی نافرمانی سے بچنے کا نام۔
اسی طرح ان محافل و مجالس اور جلوسوں میں نسل در نسل منتقل ہونے والی اسلامی اقدار بھی نمایاں ہوتی ہیں۔
*روزِ عاشور اور چہلمِ امام کے موقع پر اسلامی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ اسلامی تمدن میں بھی ایثار و فداکاری، حق گوئی و بیباکی، اصول پرستی و جرات کی ایک نئی لہر دوڑ جاتی ہے۔
یہی تو توحید کی حاکمیت ہے۔ ان ایّام میں مسلمانوں میں موجود تمام معنوی و مادی و ملکوتی و روحانی اقدار اور صلاحیتیں اپنا رنگ دکھانے لگتی ہیں۔
چنانچہ وعظ و نصیحت، ماتم و نوحے کے علاوہ مریضوں کیلئے خون کے عطیات، سبیل و لنگر کے وسیع انتظامات، فری میڈیکل کیمپس اور امدادِ باہمی جیسی ان گنت فلاحی و رفاہی خدمات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

چہلمِ امام حسین ؑ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ سیاست، دولت، حکومت، اور معاشرے کی روح بیداری اور جہاد ہے۔
خانہ کعبہ میں جب موت آپ کے سر پر کھڑی تھی، پھر بھی آپ نے لوگوں کی اصلاح اور بیداری کو نظر انداز نہیں کیا۔
اُس عالم میں بھی آپ نے لوگوں کی ہدایت کی اور روحانیت و معنویت سے بھرپور ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا۔ سیاسی و سماجی میدان اور جہاد میں خدا کی طرف توجہ اور اس کی یاد بہت ضروری ہے۔
خوشی ہو یا غم، خدا کو فراموش کرنا اسلام اور مسلمان کی حقیقی موت ہے۔
چنانچہ تاریخ میں یہ ذکر ہے کہ عاشورہ کی رات بھی خیام حسینیؑ میں عبادتِ خدا اور تلاوت قرآن جاری رہی۔ جب دشمن نے شبِ عاشور کی شام کو جنگ کرنا چاہی تو امام حسین (ع) نے قمر بنی ہاشم سے کہا کہ خدا جانتا ہے کہ میں نماز پڑھنے، قرآن کی تلاوت کرنے اور خدا سے مناجات و دعا کرنے کو بہت پسند کرتا ہوں۔
امام ؑ کا یہ فعل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ انسان کو ہر حال میں ذات واحد کے ساتھ اپنی مناجات، عبادات، بندگی اور معنویت کو مقدم رکھنا چاہیئے۔
چہلم امام حسینؑ ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ توحید پرست ہمیشہ بلند ہمت ہوتا ہے۔
آپ نے جہاں شیاطین ِ وقت کے مقابلے میں انسانوں کو اٹھنے کی جرات دی، وہیں خدا کی طرف پلٹنے والے انسانوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔
تحریکِ کربلا کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کو کبھی بھی خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے۔ چاہے کوئی بڑے سے بڑا گنہگار ہو، بڑے سے بڑا ظالم ہو، نفس اور شیطان کے ہاتھوں شکست کھا چکا ہو، جو بھی ہو، وہ حضرت حُر ؓکی طرح اپنے آپ کو معاف کرا سکتا ہے۔
اسی طرح امام عالی مقام نے بڑوں، چھوٹوں، خواتین اور بچوں سب کو ایک مشترکہ ہدف پر متحد کر دیا۔
آپ نے ان سب کی ایسے ہمت بلند کی کہ تیس ہزار کے لشکر نے اُن پر ہر ظلم کیا، لیکن ان میں اختلاف اور دراڑ نہیں ڈال سکا۔
جو ہمت و جرات مقتل میں عباس ؑ نے دکھائی تھی، اسی کا مظاہرہ درباروں میں زینبؑ و سجادؑ نے کیا۔

چہلمِ امام حسینؑ اس بات کا اعلان ہے کہ کربلا کی جنگ ہتھیاروں کو نہیں جانتی، یہ جنگ سرحدوں اور زمینوں تک محدود نہیں ہے، یہ جنگ گھر اور باہر، بھوک اور پیاس، فتح و شکست، شیرینی و تلخی اور فراوانی و تنگدستی کو نہیں جانتی۔
یہ عقائد کی جنگ ہے، یہ ایمان کی لڑائی ہے، یہ طاقت، پیسے، دھونس، جبر اور استبداد کی غلیظ دنیا کے خلاف عقائد کی انقلابی اقدار کی جنگ ہے۔
یہ ایک ایسی جنگ ہے، جو اسلامی عقائد کے تقدس، وقار اور بقاء کی جنگ ہے۔
آپ نے عملاً یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ خدا کی طاقت سے بڑھ کر کوئی طاقت نہیں۔ جو لوگ خدا کی خاطر قیام کرتے ہیں، وہ میدانِ جنگ میں حواس باختہ نہیں ہوتے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عین جنگ میں بھی امام عالی مقام اور ان کے ساتھی اپنے اعصاب پر مسلط تھے اور نظم و ضبط کے ساتھ معرکہ آرائی کرتے رہے۔
*آپ کی شہادت سے یہ درس ملتا ہے کہ جو خدا پر توکل کرتا ہے، چاہے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں، اُسے شکست نہیں دی جا سکتی۔
آپ نے سارے زمانے کو دکھا دیا ہے کہ جو خدا کی راہ میں سر خم کر دے، اس کا سر کاٹا تو جا سکتا ہے لیکن جھکایا نہیں جا سکتا ہے۔
آپ کے خطبات و فرمودات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ انسان کی سعادت و شقاوت ایک اختیاری امر ہے، جو چاہتا ہے وہ اپنے ارادے و اختیار کے ساتھ سعادت یا شقاوت کا راستہ اختیار کرتا ہے۔
آپ کے شوقِ شہادت سے واقعتاً یہ محسوس ہوتا ہے کہ حیات بعد از موت ایک سچائی ہے اور شہادت سب سے بڑی سعادت ہے۔
آپ کی شہادت سراسر ایمان کی حقانیت کو ثابت کرتی ہے۔
میدانِ کربلا سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ایمان لانے کے بعد کوئی نسل پرستی نہیں ہے۔ جو خدا پر ایمان لایا اور اس کی راہ میں شہید ہوا، وہ عربی ہو یا عجمی، رومی ہو یا ایرانی، حبشی ہو یا قریشی، اس کے مقام و مرتبے کو کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکتا۔
جو لوگ اپنا تن من دھن سب کچھ راہِ خدا میں قربان کر دیتے ہیں، خدا اپنی بارگاہ سے ان کے نام، مشن اور قربانیوں کو زندہ رکھنے کا بندوبست کر دیتا ہے۔
چہلمِ امام حسینؑ منانے والوں کو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اسیرانِ کربلا اور شہدائے کربلا ؑنے ظلم کے خلاف بغاوت کو دینی فریضے کے طور پر متعارف کرایا ہے۔
انہوں نے ہمیں ظالموں اور شیطانوں کے خلاف خاموش نہ رہنے کی تعلیم دی ہے اور ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اگر ہم ظالموں کے ہاتھ کاٹنے کے قابل نہیں ہیں تو کم از کم انہیں کسی نہ کسی طرح رسوا تو کریں۔
آخر میں یہ عرض کرنا چاہوں گی کہ امام حسینؑ جیسی شخصیت اگر مسلمانوں کے علاوہ کسی اور ملت کے پاس ہوتی تو وہ ملت اس شخصیت سے استفادہ کرکے ساری دنیا کو اپنے اندر جذب کر لیتی، لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے ایسا کبھی سوچا بھی نہیں۔

انسان کو بیدار تو ہو لینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین

اپنا تبصرہ بھیجیں