راجہ شاہ میر اختر دیرینہ دوست ہونے کے ساتھ ساتھ میرے لئے استاد کا درجہ بھی رکھتے ہیں گزشتہ تین دہائیوں سے فلاح انسانیت کے لیے کام کرنے کی غیر سرکاری تنظیم پوٹھوہار سوشل ویلفیئر کی سرپرستی کررہے ہیں جس کی بنا پر گاہے بگاہے ان کے ساتھ مختلف تقاریب سیمینارز اور ورکشاپس میں شمولیت کا موقع ملتا رہتا ہے
کچھ عرصہ قبل بھی ان کے ہمراہ تقر یب میں جانے کا اتفاق ہوا غیرسرکاری تنظیموں کے ہیڈز اور عہدیداران اپنے ورکنگ ایریاز میں عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی کارگزاری بیان فرمارہے تھے ایک صاحب نے بتایا کہ ہمارے علاقہ کے دور افتادہ گاؤں میں پینے کا صاف پانی کا مسئلہ انتہائی گھمبیر ہونے کی بناء پر خواتین سروں پر گھڑے اٹھائے ایک میل سے بھی دور فاصلہ پر موجود کنواں سے پانی لانے پر مجبور تھیں واٹر سپلائی سیکم کے لیے ایک سروے ٹیم تشکیل دی لوگوں کے مسائل اور ان کے حل کے لیے تجاویز اور آراء لی گئیں تو ایک بات یہ بھی سامنے آئی
کہ یہاں کے باسیوں کے بچوں کے لیے باقاعدہ کھیل کا میدان ہے اور نہ ہی کھیل کود کے لیے مناسب بندوبست ہے جس کی وجہ سے بچوں کا زیادہ وقت بغیر کسی سرگرمی کے ہی ضائع ہورہا ہے ساراڈیٹامرتب کرنے کے بعد پہلے مرحلے میں ہم نے گاؤں کے مرکزی کے مقام پر گول چکر والا جھولا نصب کیاتو بچوں کو کھیل کود اور وقت گزاری کا ایک وسیلہ مل گیا صبح و شام تک بچوں کے رش کی وجہ سے میلے کا سماں رہنے لگا، باری کا انتظار کرتے ہوئے چند ایک سوار ہوتے اور باقی بچے جھولے کو دھکا لگا تے اس طرح جھولا تقریبا ًسارا دن ہی رواں دواں رہتا، بچوں کے چہروں پر خوشی بھی دیدنی ہوتی کچھ دنوں کے بعد دوسرے مرحلہ میں جھولے کے ساتھ مقناطیسی بجلی پیدا کرنے والا آلہ (ڈیمنو) نصب کردیا
بچے صبح و شام تک جھولا جھولنے کا اپنا کھیل جاری رکھتے اس سے پیدا ہونی والی بجلی کو ٹرانسفارمر میں منتقل کرتے ہوئے کنواں پر موٹر نصب کردی ۔ایک اونچے ٹیلے پر ٹینکی بنا کرپائپ لائن کے ذریعے گاؤں کے متعدد مقامات پر پانی حاصل کرنے کے پوائنٹ بنا دیئے جس کی بناء پر میں ہمارا یہ پروگرام کامیابی سے چل رہا ہے اس بات کو سنے شاید دو دہائیاں گزر گئی ہوں اس وقت سولر پینل کا اتنا رجحان نہ تھا یا پھر اس ٹیکنالوجی پر اتنا زیادہ کام نہ ہوا تھا۔ یہ ایک الگ ایشو تھا بچوں کو مشغول رکھنے اور ان کی دلچسپی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فلاحی منصوبہ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کاادراک چند ماہ قبل اس وقت ہوا جب میں شام کے وقت سڑک کنارے واک کر رہا تھا کہ پختہ سڑک کے عین درمیان میں پچاس فٹ کے ایریا میں چھوٹے چھوٹے پتھر پڑے ہوئے تھے
شاید کسی ٹرالی یا ڈمپر کا ڈالہ کھلنے کی وجہ سے وہ گر پڑے ہوں جس کی وجہ سے آنے جانے والی ٹریفک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاتھا اور نہ ہی کسی کے پاس وقت کے اس کو ہٹانے کے لیے کوئی بندوبست کریں راجہ شاہ میر صاحب کی دوستی اور صحبت کا اثر و رنگ میرے دل و دماغ پر ہوچکا تھا میں نے پہلے اپنے طور پر ان چھوٹے پتھروں کو ہٹانے کی سعی لاحاصل کی پھر اچانک ہی سامنے سے مسجد سے قرآن پاک کا سبق پڑھ کر نکلنے والے بچوں پر نظر پڑی ایک ہی علاقہ کے ہونے کی وجہ سے میری جان پہچان بھی رکھتے تھے،
میرے بلانے دوڑے چلے آئے تو انہیں پاس درخت سے ایک ٹہنی توڑ کر وکٹ نما بناکر روڈ کے ایک کنارے پر کھڑے کرکے بچوں کو کہا کہ جو بچہ سڑک میں پڑے پتھر سے زیادہ بار نشانے لگائے گااس کو انعام پیش کیا جائے گا میرے کہنے کی دیر تھی کہ بچوں نے اپنا کام دکھانا شروع کردیا اگلے دس منٹ میں سڑک بلکل صاف ہو گئی پہلے تین سب سے زیادہ نشانہ لگانے والے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعام پیش کیا تووہ خوشی خوشی اپنے گھروں کی جانب روانہ ہوگئے۔ انسان میں جذبہ حب الوطنی انسانی خدمت کا مشن اور کام کی لگن ہوتو بچے بھی ہمارے دست و بازو بن کر کامیابی و کامرانی کی را ہوں سے ہمکنار کرسکتے ہیں۔