اس بھری دنیا سب سے گھنا اور سب سے ٹھنڈا سایہ باپ کا ہوتا ہے۔ اس میں کسی کو کوئی شک نہیں اور نہ ہی ہونا چاہیے، سات جولائی 1974 ء ایک مریض اپنی چارپائی پر لیٹا ہے ان سے ملنے کے لئے اور تیمارداری کرنے کے لئے ایک تعلق دار حاجی صاحب تشریف لاتے ہیں وہ مریض سے پوچھتے ہیں بھائی طبیعت کیسی ہے مریض منہ سے کچھ نہیں بولتے سر سے اشارہ کرتے ہیں میں ٹھیک ہوں‘ ساتھ ہی ان آنکھوں سے آنسو گرتے ہیں حاجی صاحب پوچھتے ہیں
بھائی آپ کیوں رو رہیں ہیں تو چارپائی پر لیٹے ہوئے مریض سامنے بیٹھے ہوئے اپنے چھوٹے بچے کی طرف اشارہ کرکے کہتے اس کو بہت چھوٹا چھوڑ کر جارہا ہوں یہ تو چوغ چغنے کے قابل نہیں، پھر وہ ہوتا ہے جو اللہ کو منظور تھا وہ مریض 10 جولائی 1974 بروز پیر 26 ہاڑ رات دس بجے خالق حقیقی سے جاملتے ہیں ان کے چار بیٹے تھے بڑے بیٹے محمد اسلم مرزا پہلی بیوی سے تھے جو چند دن کے تھے تو ان کی والدہ وفات پاگئی تھیں دوسرے بیٹے طالب حسین جنہوں نے سرگودھا بورڈ میں میٹرک کے پیپرز دیئے ہوئے تھے بد قسمت باپ اپنے بیٹے کا رزلٹ بھی نہیں سن سکے تھے
طالب حسین مرزا کا رزلٹ 13 جولائی کو باپ کے مرنے کے تین دن بعد آتا ہے ان کی سکالرشپ تھی انھوں نے 672 نمبر لئے تھے تیسرے بیٹے طارق محمود مرزا وہ ساتویں کلاس کے طالب علم تھے اور اور وہ بچہ جس کا باپ دنیا سے جاتے ہوئے آنسو بھاتے ہوتے گیا کہ میرا بچہ چوغ چغنے کے قابل نہیں وہ بچہ ایک کمزور سا بچہ ہر وقت باپ کے ساتھ چمٹ کر رہنے والا خالد محمود مرزا،جو کلاس چہارم کا طالب علم ہے، ایک دفعہ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاجاتا ہے
دنیا کا سب سے بڑا سایہ اللہ اٹھا لیتا ہے، میر ے والد صاحب کا نام محمد افسر ہے وہ 1914 ء کو ایک زمیندار گھرانے میں محمد فیروز خان کے پیدا ہوتے ہیں چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں اور بہت ہی لاڈلے بھی ہیں میرے والد صاحب 20 سال کی عمر میں 1934 پاکستان آرمی جوائن کرتے ہیں ان کی پہلی شادی ہماری پہلی امی سے 1946 میں ہوتی ہے جس میں میرے بھائی محمد اسلم مرزا صاحب پیدا ہوتے ہیں تو ہماری پہلی امی فوت ہوجاتی ہیں پھر آٹھ سال بعد ہماری امی جی سے میرے والد صاحب دوسری شادی کرتے ہیں جن سے ہم تین بھی تھے
والد صاحب آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد دادا جی کی زمینوں کو سنبھالتے ہیں بہت صحت مند اور بہت ہی خوبصورت محمد افسر جن کو بہنیں لاڈ سے ہمارا آسرا کہتی تھیں وہ سب کے خدمت گزار خاموش طبع بھرپور محنت کرنے والے بڑی زمیں داری بیلوں کے بہت شوقین تھے وقت تیزی سے گزر رہا ہے دادا جی محمد فیروز خان 1952 کو فوت ہوجاتے ہیں اور دادی صاحبہ بے جی میری پیدائش کے دو سال بعد 1966 کو اللہ کو پیاری ہوجاتی ہیں
وقت تیزی سے گزر رہا ہے میرے والد صاحب کو ایک جنون کہ میرے بچے گھر کا کام نہ کریں یہ پڑھیں اور افسر بنیں پھر ایسا ہی ہوتا طالب حسین مرزا پانچویں میں سکالر شپ، آٹھویں میں سکالر شب لیتے ہیں طالب حسین مرزا اپنے ماں باپ کا تارا ہے خاندان کا حسین وجمیل اور پاکباز،سنجیدہ نہایت لائق پورے خاندان کی امیدوں کا مرکز بن جاتے ہیں۔پھر طارق محمود مرزا پانچویں میں سکالر شپ لیتے ہیں وہ بھی بہت خوبصورت اور نہایت لائق طالب علم ہیں پھر جو بچہ جس کے لئے باپ مرنے سے پہلے رو رہا ہے کہ میں خالد کو بہت چھوٹا چھوڑ کر جارہا ہوں
وہ خالد آپ کے درمیان موجود تھے والد صاحب کی وفات کے بعد ہماری دنیا اندھیر ہوجاتی ہے ایک سایہ کے بغیر زندگی کتنی مشکل ہوتی ہے اس کا اندازہ ہمیں چند دنوں میں ہوجاتا ہے لیکن میری عظیم امی جی جن پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں وہ جب روتی ہیں تو لگتا زمیں پھٹ جائے ہم تینوں بھائیوں کو اپنے گود میں سمیٹ لیتی ہیں طالب حسین مرزا اور طارق محمود مرزا وقت سے بہت پہلے بہت بڑے ہوجاتے ہیں اس ناچیز کی زندگی سے بچپن ختم ہوجاتا ہے
امی جی ہم تینوں کو پاس بٹھا کرکہتی ہیں اب تم نے اپنے باپ کے خوابوں کی تعبیر کرنی ہے طالب حسین مرزا صرف سولہ سال کی عمر میں ایک مدبر دوراندیش اور ماں کا اور بھائیوں کا سب سے بڑا سہارا بن جاتے ہیں وہ کالج میں جانے بجائے پاکستان نیوی میں اپرنٹس چلے جاتے ہیں۔ ایک طرف ماں کے سب سے بڑے دوست اور دونوں بھائیوں کو بڑے بھائی اور باپ کا پیار دیتے ہیں۔ طالب حسین مرزا کو باپ کے خوابوں کی تعبیر بھی کرنی ہیں۔
ایک حوصلے والی جرات مند ماں کو گرنے سے بچانا ہے اور بھائیوں کو باپ بن کر پالنا اور پڑھانا ہے اور باپ کے خوابوں کی تعبیر ایک افسر بننا ہے وہ جلد ہی نیوی میں کمیشن لے جاتے ہیں اور پاکستان نیوی کی 38 سال کی سروس کرتے ہیں اور کمانڈر کے عہدے سے ریٹائر ہوتے ہیں طارق محمود مرزا کو کراچی بلا لیتے ہیں طارق محمود مرزا کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری لیتے ہیں اور خالد محمود مرزا 1981 کونتریلہ سے میٹرک پاس کرتے ہیں پھر امی جی اجازت لیکر اور دونوں بھائیوں سے اجازت لیکر پاکستان آئر فورس میں چلے جاتے ہیں یہ ناچیز پاکستان آئر فورس میں رہ کر گریجویشن کرتا ہے، طارق محمود مرزا کچھ عرصہ پاکستان نیوی میں سروس کرتے ہیں پھر اومان چلے جاتے ہیں پھر اومان سے آسٹریلیا باقاعدہ لیگلی بچوں سمیت شفٹ ہوجاتے ہیں آج طارق محمود مرزا پانچ کتابوں کے مصنف ہیں،
امی جی اپنے خاوند کی وفات کے بعد 29 سال زندہ رہتی ہیں اور اپنے خاوند کے تمام خوابوں کو حقیقت میں بدل کر اپنے بچوں کی بھرپور خوشیاں دیکھ کر اور اپنے بچوں کے گھروں کو آباد کرکے اپنے خاوند کے چمن کو آباد کرنے کے لئے اپنی جوانی اپنی پوری صلاحیتیں دینے کے بعد جب میرے ابو جی کے تمام خواب پایہ تکمیل کو پہنچ گئے تو مجھے حج پر بھیج کر اپنے خاوند کے پاس جانے کی تیاری کرلی میں حج کرنے کے بعد کچھ پریشان تھا پھر بھائی جان کمانڈر طالب حسین مرزا صاحب کا فون آتا ہے کہ امی جی بیمار ہیں میں فوری طور کچھ کوشش کر کے کراچی پہنچتا ہوں سیدھا پی این ایس شفاء پہنچتا ہوں میری امی جی اپنے لاڈلے بیٹے خالد کا انتظار کررہی تھیں 25 فروری 2003 وہ صبح اپنے خالق حقیقی کے پاس چلی گی
تھوڑی دیر ان کے بہت ہی پیارے بیٹے طارق محمود مرزا صاحب آسٹریلیا سے پہنچ جاتے ہم امی جی کو لیکر ان کے محبوب گھر کھرالی متیال لائے جب وہ اپنے محبوب خاوند کے گھر پہنچی تو چہرے پر اطمینان تھا آج انھوں نے اپنے خاوند کو جاکر بتانا تھا کہ میں آپ کے سارے چھوڑے ہوئے خوابوں کی تکمیل کرکے آئی ہوں آپ کا چمن الحمدللہ مکمل آباد ہے 26 فروری 2003 میری امی کا جنازہ ان کے لاڈلے بیٹے خالد محمود مرزا نے پڑھایا وہ قبر میں پہنچنے کے بعد میرے والد صاحب ان کا استقبال کیا اور ان کی انگلی پکڑ سیدھا جنت میں لے گئے آج الحمدللہ وہ دونوں جنت میں موجود ہیں میں گواہی دیتا ہوں کبھی میری امی جی اور کبھی میرے ابو جی نے ہمارے حلق میں حرام کا لقمہ نہیں ڈالا الحمدللہ ان کے جانے بعد ان کا لاڈلا بیٹا کمانڈر طالب حسین مرزا بھی اپنے ابو جی اور امی کے پاس پہنچ گئے۔10 جولائی ہمارے والد صاحب کو بچھڑے ہوئے پچاس سال ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ میرے آبو جی امی جی میرے بھائی جان میری دادی اور دادا جی کو سب کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین ہم سب کو پاکیزہ زندگی عطا فرمائے آمین