186

چوہدری ریاض بڑی غلطی کر بیٹھے

مائیں‘ بہنیں‘بیٹیاں جنسی بھیڑیوں کے نشانے پر

اکثر چادر سے باہر پاؤں نکالنا انسان کو بڑی آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے مگر یہ نادان اپنی غلطی ماننے کے بجائے اسے قسمت کا دوش قرار دے کر کُڑتا رہتا ہے پھر ایک وقت آتا ہے کہ اسے چادر کے تنگ ہونے کااحساس اور اپنی خواہشات کے بڑھ جانے کا دُکھ ملتا ہے تو پھر اسے اسی چھوٹی چادر کی خواہش ستاتی ہے بلکہ وہ اس کے سکون کو یاد کرتا ہے لیکن وقت ہاتھ نہیں آتا پھر اس کے پاس سوائے پچھتاوے کے اور نہیں رہتا خود پسند لوگوں کو۔اپنی صلاحیتوں پر بڑا مان ہوتا ہے جو انہیں اسی خوش فہمی میں مبتلا رکھتا ہے کہ وہ اپنی چالوں اور دانش سے سب کو شکست دے سکتے ہیں۔لیکن جب میدان عمل میں اترتے ہیں تو خود چت دیکھائی دیتے ہیں۔انسان جاہ وچشم کی چاہ میں روداری سے دوری اختیار کرتا ہے

اور تمام رشتوں کو نظر انداز کرکے مفاد پرستی کی کتنی ہی حدیں پھلانگ لیتا ہے جس کا احساس اسے کبھی درست وقت پر نہیں ہوتا کہ مفاد پرستی کا عنصر اسے کبھی درست اور غلط کی تمیز کرنے ہی نہیں دیتا۔الیکشن 2024 میں جہاں ملک کے طول وارض میں مختلف سیاسی جماعتوں کے اکابرین خصوصا مسلم لیگ کے رہنماؤں نے پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر پارٹی سے بغاوت کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کوترجیح دی یہ وہ لوگ تھے جو تن تنہا جیتنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔اور ان میں اکثریت جیت کر دوبارہ مسلم لیگ میں شامل ہوچکی ہے۔اسی طرح گوجرخان میں بھی ٹکٹ نہ ملنے پر پرانے مسلم لیگی اور پانچ بار کے ایم پی اے چوہدری ریاض نے پارٹی فیصلے کے خلاف ردعمل دیتے ہوئے پارٹی کو خیر آباد کہا اور تحریک لبیک کے ٹکٹ پر حلقہ این اے 52 سے میدان اترے۔ رزلٹ کے مطابق انہوں نے 37000 ووٹ لیے جن میں ان کے اپنے ذاتی ووٹ شاید آٹھ دس
ہزار ہی ہوں گے۔جبکہ ن لیگ کے امیدوار راجہ جاوید اخلاص نے 72000 ووٹ لیے۔اگر چوہدری ریاض لیگی امیدوار کا ساتھ

دیتے تب بھی مسلم لیگ یہ نشست نہ جیت پاتی کیونکہ پہلے
اور دوسرے نمبر کی جماعتیں ووٹس کے حوالے سے بہت زیادہ آگے تھیں۔چوہدری ریاض اور ان کے ہمددر اگر مسلم لیگ کی شکست کو چوہدری ریاض کی کامیابی سمجھتے ہیں تو شاید ان کی سوچ درست نہیں۔البتہ یہ ضرور ہوا کہ چوہدری ریاض کے اس اقدام نے انہیں بے وزن کردیا۔چوہدری ریاض کے اس اقدام سے ان کی برادری تین چار حصوں میں تقسیم ہوگئی۔جس سے ان کے برادری ازم کے پرچار کو بھی زد پہنچی دوسری جانب ان کے شریف فیملی سے گھریلو قسم کے تعلقات کا بھی اختتام ہوا راولپنڈی ڈویژن میں چوہدری ریاض شاید وہ واحد شخصیت تھے جن کا شریف فیملی سے ڈائریکٹ رابطہ تھا۔جن کو ماڈل ٹاؤن اور رائے ونڈ محلات میں بلا روک ٹوک جانے کی اجازت تھی۔ان کی شریف فیملی میں بڑی عزت اور بڑا مقام تھا جو 2013 میں پارٹی کی پشت میں چھرا گھونپنے کے باوجود قائم رہا کیونکہ اس وقت یہاں سے لیگی امیدواروں کی جیت نے چوہدری ریاض کے اقدام کو چھپا لیا تھا

لیکن اس بار ان کی پارٹی سے بیوفائی نظر انداز نہیں ہوگی۔چوہدری ریاض نے حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں پارٹی تبدیل کی اور وہ پارٹی جوائن کی جو کبھی بھی کسی صورت جیت نہیں سکتی۔یہ جماعت ہمیشہ ایک پریشر گروپ کے طور پر ہی زندہ رہے گی۔سو سوچا جاسکتا ہے کہ چوہدری ریاض نے جس دوست نما دشمن کے مشورے پر پارٹی چھوڑی وہ دوست ان کا کتنا ہمددر رہا ہوگا جس نے چوہدری ریاض کی تمام تر محنت اور کامیابیوں کو اپنے ایک مشورے سے تہس نہس کردیا۔اب چوہدری ریاض سوچیں کہ انہوں نے پاوں پر کلہاڑی ماری ہے یا پاوں کلہاڑی پر مارا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں