ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ ہماری عوام اتنی سادہ ہے کہ اسکو جدھر لگایا جائے لگ جاتی جسکے کان میں جو بات ڈال دی جائے جو بول دیا جائے اسکو ہی مان لیتی اور اسکے پیچھے بھاگنے لگ جاتی ہے یعنی ہم بحثیت قوم ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگنے والی کہاوت پاکستان میں زبان زد عام ہے مگر ہم آج جس بتی کی بات کر رہے ہیں وہ سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے عمائدین اور ساتھیوں کو دی جانے والی بتی ہے گو کہ چوہدری نثار علی خان ملک پاکستان کے مایہ ناز سیاست دان ہے اور انکا شمار پاکستان کے چند بڑے اور پرانے سیاست دانوں میں ہوتا ہے اور جنکا ماضی بھی بے داغ ہے 2018 کے انتخابات سے قبل انکے حلقہ احباب اورعمائدین میں چہ مگوئیاں تھیں کہ چوہدری نثار علی خان الیکشن جیتنے کے بعد ملک کے وزیراعظم یا پھر وزیراعلیٰ بن رہے ہیں اور واپس مسلم لیگ ن کا حصہ ہی ہونگے یہی وجہ تھی کہ ان کے ووٹر جو کئی دہائیوں سے انکے ساتھ چل رہے تھے مسلم لیگ ن کے بجائے آزاد الیکشن لڑنے کے باوجود انکے ساتھ کھڑے رہے کہ آیا واقعی ایسا ہونے والا ہے مگر قسمت کی دیوی کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ 2018 کے الیکشن میں چوہدری نثار علی خان جو چار حلقوں سے الیکشن لڑ رہے تھے جن میں دو قومی جبکہ دو صوبائی سیٹیں تھی مگر ان4 میں سے تین سیٹوں پر انکو شکست کا سامنا کرنا پڑا جبکہ انکی قسمت میں صرف ایک سیٹ آئی وہ بھی صوبائی اسمبلی کی جس پر وزیراعظم بننے کی چہ مگوئیاں تو دم توڑ گئیں اور انکے ساتھی بھی مایوس ہوگئے ایسی شکست کے بعد کیونکہ یہ شکست انکے ووٹر سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بسنے والے تجزیہ نگاروں کے لیے بھی نئی تھی کیونکہ سبکو یقین تھا کہ انھوں نے 4 میں سے 3 تو لازمی جیتنی ہیں لیکن شکست کے بعد انکے چاہنے والوں کو پھر سے حوصلہ دیا گیا کہ فکر نہ کریں کہ چوہدری صاحب وزیراعلیٰ پنجاب کی نشست پر براجمان ہونے کو ہیں ایک بار پھر حلقہ کی سیاست میں چوہدری صاحب کا چرچا شروع ہوگیا لیکن یہ افواہیں بھی اس وقت دم توڑ گئی جب چوہدری صاحب نے حلف لینے سے انکار کیا اور وزیراعلی بھی عثمان بزدار کو لگا دیا گیا لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں گزشتہ اڑھائی سالوں میں یہ ٹرک کی بتی متعدد بار لوگوں کو اپنے پیچھے لگا چکی ہے اور ہر چند ماہ بعد ایک نئی افواہ سامنے آجاتی کہ وزیراعلی پنجاب کو ہٹایا جانے لگا اور انکی جگہ چوہدری نثار وزیراعلی پنجاب آنے لگے جس کے بعد انکے کارکن بھی تھوڑا عرصہ پرجوش نظر آتے مگر تاحال ایسے آثار کئی نظر نہ آئے نہ ہی آنے کی امید لیکن سیاست میں اور وہ بھی خاص طور پر پاکستان کی سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا لیکن فی الحال یہ ٹرک کی بتی ہی ثابت ہورہی ہے اب گزشتہ ایک ماہ سے نئی چہ مگوئی نے جنم لیا ہوا تھا خاص طور پر مسلم لیگ ن کے حلقوں میں کیونکہ چوہدری صاحب کے کسی بھی فیصلہ نہ کرنے کے سبب انکے ساتھی اب آہستہ آہستہ جو ایک مٹھی میں بند تھے ریت کی طرح نکلنا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ ہر کسی نے اپنے مستقبل کو بھی دیکھنا کہ آگے اس نے کیا کرنا ہے کیونکہ چوہدری صاحب تو فیصلہ کر نہیں رہے یا کر پا نہیں رہے یا انکے پاس کوئی آپشن فی الحال بچا نہیں لیکن اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اور ان لوگوں کو
روکنے کے لیے مسلم لیگ ن کے حلقوں سمیت اپنے قریبی وابستگان میں نئی افواہ چلائی گئی کہ چوہدری نثار علی خان اور مسلم لیگ ن کی راہیں دوبارہ سے ملنے لگی ہیں اور بہت جلد وہ باضابطہ مسلم لیگ ن کا دوبارہ سے حصہ ہونگے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی شہاز شریف کی رہائی ہے اب انکی بہت جلد آپس میں ملاقات متوقع ہے اس لیے جو لوگ واپس مسلم لیگ ن میں یا کہیں اور جا رہے یا جانے کا سوچ رہے وہ تھوڑا سا حوصلہ رکھیں اس خبر سے جہاں چوہدری نثار علی خان کے کارکن پرجوش نظر آئے کہ چلیں دیر آئے درست آئے کوئی فیصلہ تو ہوا وہی پر مسلم لیگ ن کے ووٹر میں بے چینی پھیلتی گئی کہ اب یہ کیا ہونے جارہا لیکن یہ ٹرک کی بتی بھی چند ہفتوں تک ہی لوگوں کو اپنے پیچھے لگا سکی اور بالآخر یہ بھی پچھلے اڑھائی سالوں سے دم توڑ دینے والی افواہوں کی طرح اس وقت دم توڑ گئی جب چوہدری نثار علی خان کے سیاسی حریف اور حلقہ این اے 59 سے مسلم لیگ ن کو دوبارہ سے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے والے انجینئر قمر اسلام راجہ نے شہباز شریف سے لاہور میں انکے کہنے پر ملاقات کی اور نہ صرف خود ملاقات کی بلکہ مشکل وقت میں ساتھ کھڑے رہنے والے فیصل قیوم ملک جو صوبائی اسمبلی کے امیدوار بھی تھے انکی ملاقات بھی کروائی جس سے وہ تمام افواہیں کہ وہ واپس مسلم لیگ ن میں آرہے ہیں دم توڑ گئی اور اس ملاقات سے واضح پیغام دیا گیا کہ مسلم لیگ ن کی اعلی قیادت انکے ساتھ ہے اور حلقہ این اے 59 سے انجینئر قمر اسلام راجہ ہی مسلم لیگ ن کے کرتا دھرتا ہیں اور وہی یہاں سے مسلم لیگ ن کو لیڈ کریں گے تو ایسے میں ایک بار پھر جس ٹرک کی بتی کے پیچھے لوگوں کو لگایا گیا تھا وہ بتی پھر سے بجھ گئی اب دیکھنا ہوگا کہ آنے والے وقت میں کونسی نئی بتی یا چہ مگوئی سامنے آتی ہے اور وہ کب تک اثر انداز رہے گی لیکن اس سے ایک بات واضح ہورہی ہے کہ یہ گزشتہ اڑھائی سالوں سے بار بار کی افواہیں اس لیے شاید سر اٹھاتی ہے کہ انکے کارکن مایوس نہ ہوں بلکہ پرجوش رہیں کہ آنے والا وقت اچھا ہوگا۔
311