انسان تمام عمر اپنی چاہت اور ضرورت کے درمیان مغالطے کا شکار رہتا ہے۔ وہ عمر بھر اپنی چاہت کو ضرورت سمجھ کراس کے حصول کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ گو اُسے اپنی دُنیاوی چاہت میں سے کچھ نہ کچھ ملتا ضرور ہے مگر اُس کے عوض وہ اپنا بہت کچھ قربان کر دیتا ہے، بشمول اپنیقیمتی وقت کے۔حقیقت تو یہ ہے کہ اِس دُنیا میں انسان کی ضرورت اُس کی چاہت سیبہت تھوڑی ہوتی ہے۔ اتنی تھوڑی کیانسان اگر اِس بات کی حقیقت کو سمجھ لے تو وہ عالمِ اسباب کے پیچھے سرپٹ دوڑنا چھوڑ دے۔ اُس کی بے سکونی سکون میں ڈھل جائے اور اُس کے وقت میں خود بخود برکت آجائے۔ (ارشد خان‘دوبیرن)
55