243

پنڈی پوسٹ بنا علاقہ کی پہچان

بعض لوگوں کی سرشت میں یہ چیز شامل ھوتی ہے کہ تنگی و خوش حالی ان کے مزاج گفتار میں کوئی تبدیلی نہیں لاتی اور یہ اللہ تعالیٰ کا اس بندے پر خصوصی فضل ھوتا ہے جو اسے ھر حال میں شکر گزار اور عاجز رکھتا ہے 1994-5 کی بات ہے جب عبد الجبار چوھدری اور سیکریٹری اسرار حسین جنجوعہ صاحب کی وساطت سے پنڈی پوسٹ کے بانی و چیف ایڈیٹر عبدالخطیب چوھدری صاحب سے ھوئی تھی

columns
writer

اس وقت غالبا وہ بھی طالب علم ہی تھے اور میں بھی طالب علم تھا ان کے پاس اخبارات کی ایجنسی ھوتی تھی ساتھ ساتھ وہ نوائے وقت کی نامہ نگاری بھی کر رہے تھے ان دنوں ملک پاکستان کے دو ھی اخبار جنگ اور نوائے وقت سب سے زیادہ مشہور اور سب سے زیادہ پڑھے جاتے تھے نوائے وقت جیسے اخبار کی نامہ نگاری کسی اعزاز سے کم نہیں تھی کیونکہ ان دنوں نامہ نگاری حاصل کرنا بڑا ہی کٹھن اور جان جوکھوں کا کام ھوتا تھا میں نے پہلی ملاقات میں ان کو دھیمے اور ٹھنڈے مزاج اور عاجز کے ساتھ ساتھ خودار انسان پایا ان دنوں ان کی مالی پوزیشن بھی اتنی اچھی نہیں تھی.

شاید اسی لیے شروع سے ہی محنتی اور دل جمی کے ساتھ کام کرنے والے تھے محروم شخص محرومی کی مشکلات سے واقف ھوتا ہے اس لیے اسکی ہمیشہ یہ خواہش ھوتی ہے کہ وہ دوسروں کو اس سے بچائے عبدالخطیب چوہدری بھی اس درد کو محسوس کر چکے تھے اس لیے انہوں نے ٹھان لیا کہ میں نے صحافت کے ذریعے محروم اور مشکلات سے دو چار لوگوں کی آواز بننا ہے اور اپنے علاقے کی محرومیوں کے خاتمے کے لیے نہ صرف بھرپور کوشش کرنی ہے بلکہ ان کے خاتمے کے لیے ہر پلیٹ فارم پر آواز بلند کرنی ہے.

جیسا میں نے پہلے ذکر کیا امیر کبیر تو تھے نہیں اس لیے اپنے خواب کو سچ کرنے کے لیے سخت محنت اور لگن سے کچھوے کی چال چلتے رہے اس مقام تک پہنچنے کے لیے انہوں نے کسی کے کندھے کا سھارا نہیں لیا کہ کسی کے کندھے پر پاؤں رکھ کر اس مقام و مرتبہ کو حاصل کر لیا ھو بلکہ اپنے بل بوتے محنت کوشش سے اگے بڑھتے رہے اس سارے سفر کے اندر انہوں نے کبھی بھی کسی سے ناجائز فایدہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی کسی سے بھتا لیا بلکہ جو بھی خبر میرٹ پر بنتی تھی اسی کو اخبار کی طرف بھیج دیا.

اب جب انہوں نے محسوس کیا کہ ہر اخبار کی ایک پالیسی ھوتی ہے اسی کے مطابق وہ خبریں شائع کرتے ہیں اس سے ھمارا مقصد حل نہیں ھو رہا تو انہوں نے اگلا قدم اٹھانے کا سوچ کر تو اپنے قریبی چند دوستوں کے مشورے سے اس علاقے کی محرومی کی زبان بننے کے لیے ایک ہفت روزہ اخبار پنڈی پوسٹ کے نام سے شائع کرنے کا فیصلہ کیا اخبار چلانے کے لیے سٹاف اور پالیسی بڑا اھم کردار ادا کرتے ہیں سٹاف با اخلاق ھو تو لوگ کھنچے چلے آتے ہیں 2018 کی بات ہے جب مجھے میرے ماموں زاد بھائی حسرت نثار نے کہا شہزاد بھائی کچھ لکھا کرو جب انہوں نے فورس کیا تو پھر عبد الجبار چوھدری صاحب سے رابطہ کیا.

آپ میری تحریر پنڈی پوسٹ میں لگوا دیں (میں سعودی عرب میں تھا ) انہوں نے حافظ شہزاد رضا صاحب جو میرے ھم نام ہیں کا نمبر بھیجا میں نے ان کو تحریر بھیج دی اور لگ بھی گئی اس کے بعد وہ مسلسل مجھ سے رابطہ میں رہتے ہیں اس عرصے میں چھٹی گیا تو ملاقات کے لیے گھر بھی تشریف لائے اب کبھی سستی میں نہ لکھ سکوں تو یاد دھانی کرواتے ہیں آپ کی تحریر نہیں پہنچی یہ بھی خطیب صاحب کی کاپی ہیں انتہائی ملنسار خوش اخلاق خوش گفتار ہیں یوں کہا جائے تو بے جا نہ ھو گا وہ ماڈرن درویش ہیں جسے کسی چیز کا لالچ نہیں ہے.

دوسرا ان کے اخبار کی پالیسی شروع دن سے یہ رہی کہ وہ نہ کسی کو دوست بنائیں گے اور نہ ہی کسی کے ساتھ دشمنی پالیں گے بلکہ وہ میرٹ کی پالیسی پر گامزن رہیں گے جو بھی کام ہوگا جو بھی خبر ہوگی وہ میرٹ پر لگے گی شاید اسی چیز نے ان کی یاوری کی حالانکہ وہ خود ایک سیاسی شخصیت ہیں دو دفعہ الیکشن لڑچکے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی اپنے کسی مخالف کے خلاف ایک سطری خبر بھی نہیں لگائی اور نہ ہی کسی کی بےجا تعریف کی.

عبدالخطیب ایڈیٹر

یہی چیز ان کی پہچان بنی اس علاقے میں جہاں بھی ظلم و زیادتی ھوتی ہے جہاں بھی علاقے کو محروم رکھا جاتا ہے پنڈی پوسٹ اس کی آواز بن جاتا ہے اس ڈیجیٹل دور میں بھی لوگ اس کے شمارے کا انتظار کرتے ہیں یہ لوگوں کا اس کے ساتھ پیار ہے یہ پیار اس کی پہچان ہے پنڈی پوسٹ عبدالخطیب چوہدری اور علاقے کی پہچان بنا لیکن اس پہچان اور شہرت اور رزق حلال کی فراوانی نے عبدالخطیب چوہدری کی چال ڈھال گفتار میں کسی قسم کی تبدیلی رونما نہیں کی جب بھی ملا ھوں وہی 1995والا خطیب ہی ملا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں